کل کی بات لگتی ہے جب 4 اپریل 1979ءکو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اس واقعے کو 4 دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے ان کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا گیا اور ایک لمبے عرصے کے بعد اس ملک کی اعلیٰ عدالت کے ججوں نے بجا طور پر تسلیم کیا کہ ان کے ٹرائل میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا تھا‘ اس غربت زدہ ملک میں جو روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ انہوں نے لگایا تھا اس کو ازحد عوامی پذیرائی ملی تھی اور جس نے وطن عزیز کی ایک بڑی آبادی کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا یہ اور بات ہے کہ اس نعرہ کو عملی جامہ ان کے بعد ان کی صاحبزادی تک کے دور حکومت تک بھی صحیح معنوں میں پہنایا نہ جا سکا‘ ذوالفقار علی بھٹو صرف ایک پرکشش شخصیت کے مالک ہی نہ تھے وہ انگریزی زبان کے بہت اچھے مقرر بھی تھے‘ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو میں بھی اچھی خاصی تقریر کرنا سیکھ لی تھی وہ نہایت پڑھے لکھے انسان تھے ‘وہ دنیا کے ہر لیڈر سے جب سیاسی امور پر گفت و شنید کرتے تو اس میں خود اعتمادی کی جھلک دکھائی دیتی‘ یہ ان کی سیاسی بصیرت اور عالم اسلام کے اس وقت کے
رہنماﺅں میں مقبولیت کی وجہ تھی کہ ان کے کہنے پر 1974ءمیں لاہور میں اسلامی ممالک کے لیڈروں کی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں تمام سرکردہ مسلم رہنماﺅں نے شرکت کی کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو صحیح معنوں میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے امریکہ بھلا کب یہ برداشت کر سکتا تھا کہ مسلم ورلڈ میں کوئی ایسا لیڈر پیدا ہو کہ جو عالم اسلام پر چھا جائے اور جو مسلم ممالک کو ایک جھنڈے تلے اکھٹا کرے یا ٹیم بنانے کی جسارت کرے ‘کئی سیاسی مبصرین کے مطابق وہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے اور ان کو اقتدار سے ہٹا کر تختہ دار تک پہنچانے میں امریکی
سازش کار فرما تھی وہ اس ملک کے سیاسی افق پر آ ندھی کی طرح آ ئے اور بگولے کی طرح چلے گئے ‘یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا اور ملک کی معیشت پر اس وقت کے بائیس خاندانوں کی اجارہ داری کا پردہ چاک کیا ‘ جب ذوالفقار علی بھٹو نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے اپنی راہیں جدا کر کے پی پی پی کی بنیاد رکھی تو ملک کے چاروں صوبوں سے جو افراد ان کے ساتھ ہراول دستے میں شامل تھے ان میں آج چند افراد ہی بقید حیات ہیں وہ خال خال ہی رہے گئے ہیں جے اے رحیم جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور لکھا آج موجود نہیں حفیظ پیرزادہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے سیف الرحمان کیانی حیات خان شیر پاو¿ بھی داعی اجل کو کب کا لبیک کہہ چکے ہیں اسی طرح خورشید حسن میر بھی وفات پا چکے ہیں نصراللہ خٹک‘ معراج محمد خالد ‘ڈاکٹر مبشر حسن اور حنیف رامے
بھی کب کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ کراچی لاہور اور اسلام آ باد اور راولپنڈی کے جڑواں شہر میں جس تیزی سے سٹریٹ کرائم بڑھ رہا ہے وہ حد درجہ تشویش ناک ہے‘ پولیس کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے‘ ماضی میں ایک سے زیادہ مرتبہ جب کراچی میں سٹریٹ کرائم بڑھا تھا تو تاجروں کے اصرار پر حکومت کو پولیس کی معاونت کے واسطے رینجرز کو طلب کرنا پڑا تھا ‘پولیس آخر سٹریٹ کرائم کو کیوں کنٹرول نہیں کر پا رہی کیا اس کے نچلے کیڈر میں بھرتی کے دوران میرٹ کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا اور سیاسی سفارش پر نا اہل افراد کو اس میں بھرتی کیا جا رہا ہے ‘ کہا جاتا ہے کہ جب کوئی بھی شہر حد درجہ آ بادی کے لحاظ سے بھر جائے تو وہ نہ صرف اپنی توانائی کھو بیٹھتا ہے اس کا نظم و نسق سنبھالنا مشکل پڑ جاتا ہے لہٰذا اس میں مزید آباد کاری بند کر کے اس کی جگہ نئے شہر آ باد کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے ‘کراچی کا بھی کچھ اسی قسم کا مسئلہ نظر آ رہا ہے ملک میں اگر غربت ڈیرے ڈال لے تب بھی لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔