گزشتہ چند سال سے سرکاری یونیورسٹیوں بالخصوص پشاور یونیورسٹی جیسی قدیم اور صوبے کی سب سے بڑی درسگاہ میں کنگال پن کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے مایوسی‘ محرومی اور اضطراب کی جو کیفیت طاری ہوئی ہے اس کے ہاتھوں حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین دونوں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ احتجاج کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے‘ پشاور یونیورسٹی نے تو گزشتہ دو سال کے دوران احتجاج کے74سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے تاہم نتیجہ تاحال صفر ہی نظر آرہا ہے‘ ملازمین احتجاج میں وہ ریٹائرڈ ملازمین بھی شامل نظر آتے ہیں جو اس وقت تک چلنے پھرنے کے قابل ہیں تاہم جب طویل کاربندی اور نعروں سے کچھ ہاتھ نہیں آتا تو پنشنرز بے چارے عدالت کا رخ کر جاتے ہیں اور وہاں سے ریلف بھی ملتا ہے لیکن یونیورسٹی کے پاس جب پیسے نہ ہوں تو ادائیگی کیسے کریں؟ اور پھر ادائیگی بھی معمولی نہیں بلکہ پشاور یونیورسٹی کو پنشن کی ادائیگی کیلئے ماہانہ10کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح تنخواہیں اب20کروڑ تک پہنچ چکی ہیں اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے بھی 10کروڑ درکار ہوتے ہیں‘ ایسی ابتر حالت میں جبکہ حکومت گرانٹ نہیں دیتی
اور تعلیمی بجٹ برائے نام ہو اور ساتھ ہی جامعات کے اپنے وسائل انتہائی محدود اورناکافی ہوں تو ایسے میں لازمی اور فطری طور پر کفایت شعاری کا سوچا جا سکتا ہے مگر نہ جانے کہ مادر علمی میں یہ سوچ کیونکر اپنی موت آپ مر گئی ہے مطلب تنخواہوں کی ادائیگی جب قرض لیکر کی جارہی ہو اور ریٹائرڈ ملازمین پنشن کے بروقت حصول اور بجٹ میں ہونے والے اضافے سے دوسرے مالی سال کے آنے تک محروم ہوں میرے خیال میں وہاں پر درجنوں گاڑیوں کے گھومنے پھرنے جیسی شاہانہ ٹھاٹ باٹ زیب نہیں دیتی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس خان کا دعوی تھا کہ جب انہوں نے چارج سنبھالا تو یونیورسٹی مالیاتی اداروں کی679 ملین روپے مقروض تھی یعنی یہ پیسے تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہوئے تھے مگر ان کی کوششوں‘ اصلاحات (کٹوتیوں) اور حکومت سے گرانٹ کے حصول کے نتیجے میں قرضہ واپس
کردیاگیا اب اس بہتر کارکردگی پر موصوف خراج تحسین کے مستحق تھے مگر کیا کہئے کہ انہیں کچھ اس قدر ناشائستہ حرکتوں کیساتھ رخصت کیا گیا کہ وہ مادر علمی کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رہیں گی‘ بہرکیف آمدم برسر مطلب وہ یہ کہ جامعہ پشاور میں تنخواہوں کیلئے قرض لینے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے اب یہ تو خیر معلوم نہیں کہ بینکوں سے قرضہ لیا جاتا ہے یا یونیورسٹی اپنے اکاﺅنٹس کے ان طاقوں میں سے پیسے نکال کر خرچ کر رہی ہے جو پراجیکٹس‘ جی پی فنڈ یا سکالر شپ فنڈ کے ہوا کرتے ہیں؟ بہرکیف جو بھی ہو حاضر سروس ملازمین نے رمضان میں کچھ زیادہ محنت تھکاوٹ کے بغیر نہ صرف تنخواہیں لے لیں بلکہ35 اور30 فیصد والی نئی تنخواہیں لیکن افسوس اس بات کا کہ جامعہ پشاور سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے ریٹائرڈ ملازمین پھر بھی محروم رہ گئے یہ بے چارے پنشن میں ہونیوالے 17.50 فیصد اضافے سے بھی تاحال اس لئے محروم ہیں کہ سسٹم کو جام کرکے روڈ بلاک کرنا اب ان کے بس کا کام شاید نہ ہو جبکہ حاضر سروس تو ایک بار پھر اتنے زبردست واقع ہوئے کہ عید پر تعطیلات کے حکومتی اعلان کو بالائے طاق رکھ کر8اور9 اپریل جیسے کام کے دنوں کو بھی تعطیلات میں شامل کرکے پانچ کی بجائے9 چھٹیوں تک پہنچ گئے۔