الوداعی پذیرائی ہو تو ایسی

یونیورسٹی کے بہت سارے لوگوں کی طرح بالآخر پروفیسر ڈاکٹر حزب اللہ خان بھی اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے60 سالہ پر رخصت ہوگئے‘یونیورسٹی سے میری 25سالہ وابستگی کے دوران بہت سے لوگ آئے اور چلے گئے ان میں ایک آدھ وہ بھی شامل ہونگے جن کا کوئی نام رہا نہ نشان اور نہ ہی کوئی یادگاری کام‘ بہت سارے اب ہمارے درمیان موجود بھی نہیں البتہ جو موجود ہیں ان میں پروفیسر حزب اللہ ان لوگوں میں سرفہرست ہونگے جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ بنیادی طورپر تو علوم ماحولیات کے پروفیسر تھے لیکن انتظامی نشستوں پر جس طریق اور شایان شان طورپر خدمات انجام دیں یہ خصوصیت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے پروفیسر کی حیثیت سے تدریس و تحقیق اور ریسرچ سکالرز کی سرپرستی اور نگرانی کیساتھ ساتھ انتظامی عہدوں پر موصوف نے جس قدر متانت‘ مستقل مزاجی اصول اور ملنساری کیساتھ کام کیا وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن اس حقیقت میں انہوں نے یونیورسٹی کو جس قدر مالی فوائد دیئے وہ بھی نظر انداز نہیں ہو سکتے‘ موصوف نے ڈائریکٹر ایڈمشن کمانڈنٹ باڑہ گلی کیمپس اور کنٹرولر امتحانات سمیت مختلف پوسٹوں پر جتنا عرصہ کام کیا وہ ان کی اصل اور بنیادی ڈیوٹی یعنی تدریس و تحقیق پر موصوف نے کبھی بھی اثر انداز نہیں ہونے دیا وہ ٹیچرز ایسوسی ایشن سے بھی ایک معاملہ  فہم اور رہنما رکن کے طور پر وابستہ رہے لیکن انتظامیہ اور اساتذہ کے مابین ہمیشہ ایک پل کے طور پر کلیدی کردار ادا کیا یہی وجہ تھی کہ موصوف یونیورسٹی انتظامیہ کیساتھ ساتھ فرینڈز کے علاوہ اساتذہ کی دوسری تنظیموں کیلئے بھی قابل قبول رہے۔31جنوری 2025ء کو ملازمت سے سبکدوشی پر انتظامیہ فیکلٹی نان ٹیچنگ سٹاف بالخصوص شعبہ امتحانات کی طرف سے جس قدر پذیرائی اور قدر و منزلت ملی اس کا اندازہ ان تقاریب کے اہتمام سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو کہ تاحال جاری ہیں‘موصوف  سے باہمی تعاون و احترام کا میرا جو25سالہ تعلق رہا وہ بھی بھولنے والی بات نہیں‘ انہوں نے ممبر سنڈیکیٹ سینیٹ اکیڈمک کونسل اور باڈیز کی مختلف کمیٹیوں میں جو رہنماکردار ادا کیا وہ جامعہ میں مثال کے طورپر یاد رکھا جائے گا‘ گزشتہ ایک عشرے کے دوران مختلف مسائل اور محرومیوں کے سبب حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ سے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی رسہ کشی اور احتجاجی سلسلوں کے دوران بھی موصوف نے اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا وہ شعبہ انوائرمنٹل سائنسز کے چیئرمین بھی رہے اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی ریویو کمیٹی کے رکن بھی‘ ہر حیثیت میں یہ ثابت کیا کہ وہ ایک کہنہ مشق معلم‘مایہ ناز ریسرچر اور معاملہ فہم انسان اور قابل اعتماد دوست ہیں بحیثیت کنٹرولر امتحانات ان کے دور میں کبھی بھی کسی مسئلے نے سر نہیں اٹھایا حالانکہ شعبہ امتحانات تو جائز اور ناجائز شکایات‘ بعض سہواً کوتاہیوں اور طلباء سمیت متعلقہ لوگوں کے احتجاج کیلئے ہمیشہ سے مشہور رہاہے‘ پروفیسر حزب اللہ کے بعد ان کی تدریسی اور انتظامی نشستوں پر آنے والے لوگ اگر یہ کردار‘ معیار‘ وقار اورخدمات بدستورجاری رکھیں تو یہ موصوف کی پیروی اور پاسداری کی ایک بڑی نشانی ہوگی‘اگرچہ ان کی عملاً یعنی فزیکلی وابستگی ایک عرصہ تک برقرار رہے گی کیونکہ علوم ماحولیات کے بہت سے ریسرچ سکالرز ابھی ان کی زیر نگرانی تحقیق کر رہے ہیں لیکن اس مسئلے اور ربط کے اختتام کے بعد بھی یونیورسٹی اور اس سے وابستہ دوسرے لوگ یہ اقرار اور اعتراف کرتے رہیں گے کہ پروفیسر حزب اللہ ایک اچھے انسان‘ بہترین دوست‘ مثالی منتظم اور لائق اور محنتی استاد ہیں۔