اباسین کا   ”ٹیکاو“

پشتو کے ممتاز شاعر، نقاد، محقق اور ٹی وی ریڈیو کے معروف اینکر، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کی شاعری کی چوتھی کتاب منظر عام پر آگئی ہے۔ مجموعی طور پر یہ انکی تیرہویں کتاب ہے”ٹیکاو“ (قرار) 264 صفحات پر مشتمل، خوبصورت آؤٹ لک، جاذبِ نظر ٹائٹل کے ساتھ گران خپرندویہ ٹولنہ منگورہ سوات کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ دلکش کمپوزنگ اور خوشنما کاغذ نے کتاب کے حسن  میں اضافہ کیا ہے۔ رومانی، ترقی پسند، روحانی اور قومی خیالات پر مبنی شاعری سے مزین یہ کتاب بار بار پڑھی جانے کے لائق ہے۔ مصنف 1964ء  میں خانپور ضلع دیر پائین میں پیدا ہوئے‘ پشاور یونیورسٹی سے 1986 ء میں ایل ایل بی اور 1988ء میں ایم اے پشتوزبان وادب کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا جبکہ 2016ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ گذشتہ تقریبا ً45 سال سے پشتوزبان وادب‘ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کیلئے باقاعدہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موصوف پشتو اور اردو کی13 کتابوں کے مصنف مولف اور مترجم ہیں۔ علمی، سماجی اور ادبی خدمات کیلئے مختلف اداروں سے چار سو سے زائد سووینرز اور شیلڈز حاصل کر چکے ہیں۔ حال ہی میں انہیں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا ہے۔ 2019ء میں انہیں ٹیچنگ سٹاف ایسوسی ایشن اسلامیہ کالج پشاور کی جانب سے بہترین استاد کا اعزاز دیا گیا  نیز پشتو زبان و ادب کیلئے بیش بہا خدمات پر حکومت پاکستان 2020ء اور حکومت افغانستان 2018ء کی جانب سے صدارتی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔جاذب شخصیت اور ادب سے گہرے لگاؤ کی بدولت خیبر پختو نخوا کی تقریباً تمام ادبی تقاریب کا لازمی حصہ تصور کئے جاتے ہیں‘ پشتو اور اردو جرائد کیلئے بے شمار تحقیقی، تنقیدی مضامین، کتابوں پر تبصرے اور دو سو سے زائد کتابوں کے پیش لفظ تحریر کر چکے ہیں‘ ڈاکٹر اباسین یوسفزئی اندرون ملک اور بیرون ملک کئی علمی، ادبی اور ثقافتی تقاریب میں ممتاز حیثیت میں شرکت کرتے رہے ہیں، اب تک اس سلسلے میں بیس سے زائد ممالک کا دورہ کر چکے ہیں‘ وہ شعبہ پشتو اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے چیئر مین اور تاریخی خیبر یونین کے انچارج بھی رہے‘ سٹوڈنٹس سوسائٹیز کے چیف آرگنائزر ہونے کی حیثیت سے ہر سال سینکڑوں طلباء  وطالبات کی علمی، ادبی اور ثقافتی آبیاری کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹوریٹ آف کریکولم اینڈ ٹیچر ایجوکیشن خیبر پختونخوا کیلئے پہلی جماعت سے لیکر بار ہویں جماعت تک پشتو زبان کو لازمی مضمون بنانے کی نصاب سازی میں معاون کی حیثیت سے کام پایہ تکمیل تک پہنچایا۔پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے باصلاحیت کمپیئر ہونے کے ناطے وگمے، ترنگ، یاد گیرنہ، غزلزار، کلی پہ کلی اور شاعر انسانیت (اردو) جیسے کامیاب ترین  پروگراموں کی میزبانی کی۔ انہوں نے پی ٹی وی ہوم، پی ٹی وی ٹو، پی ٹی وی نیشنل، پی ٹی وی نیوز، ایف ایم 101، ریڈیو پختونخوا اور ریڈیو پاکستان پشاور کے علاوہ کئی نجی چینلز کیلئے بے شمار ادبی اور میگزین پروگراموں کے مسودات تحریر کئے اور میزبانی کی۔ محکمہ ثقافت خیبر پختونخوا کیلئے کئی ادبی، ثقافتی اور تحقیقی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں۔ ادب اور ثقافت سے متعلقہ کئی قومی اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہیں۔ان کی شاعری کی پہلی کتاب غورزنگونہ (امواج مست پہلی بار 1994 ء میں شائع ہوئی جو عوامی تقاضے پر ابتک 10 مرتبہ شائع ہو چکی ہے جو کہ پشتو ادب کی اشاعت کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ آج تک کسی بھی پشتو کتاب کو یہ اعزاز حاصل نہیں۔ اباسین یوسفزئی کی شاعری کی دوسری کتاب الوت (اْڑان)2005ء میں پہلی بار شائع ہوئی اور ابتک پانچ بار شائع ہوئی۔ دونوں کتابوں نے پشتو شاعری کے میدان میں رائج اکثر ادبی اعزازات حاصل کئے ہیں۔ اْن کا تیسرا شعری مجموعہ " مرام (مشن) 2016 ء کے نام سے شائع ہو چکا ہے‘ تازہ ترین کتاب 'ٹیکاو'(قرار) 2024ء  میں منظرِ عام پر آگئی ہے‘اس کے علاوہ اباسین یوسفزئی کی نثر کی سات کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔اباسین سے میرا تعلق چار عشروں یعنی اس وقت سے بھی پہلے سے قائم ہے کہ راقم1986ء میں سید میر مہدی شاہ کی زیر ادارت پشتو اردو مجلے ”قیادت“ سے منسلک تھا بعدازاں 1988ء سے پشتو روزنامہ وحدت میں گیارہ سال کا دورگزار ا اور ساتھ ہی ہمیش خلیل کے پشتو روزنامہ ”باگرام“ سے بھی وابستہ رہا‘ اس دوران جب نشتر ہال بنا تو وزیر اعلیٰ ارباب جہانگیر خان خلیل کی خواہش پر وہاں پر پہلا پشتو مشاعرہ عاصی ہشنغری اور میں نے اہتمام کیا جس میں حمزہ بابا بھی شریک ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر سے وابستہ ایک پشتو شاعر نے مشاعرے کی نظامت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی  جسے ہم نے ناکام بنادی‘ اسی دور میں سلیم راز کی کوششوں سے پشاور شہر کے گورگٹھڑی ہال میں پشاور کی پہلی تین روزہ عالمی کانفرنس بھی ہوئی جس کا افتتاح باچا خان اور امیر حمزہ شنواری نے کیا تھا یہ اباسین یوسفزئی سے میری رفاقت کے ابتدائی دور کی باتیں تھیں جبکہ رفاقت بدستور قائم ہے ممکن ہے کہ ان کی شخصیت میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں بھی ہوں لیکن میری نظر سے نہیں گزریں اور نہ ہی محسوس کی ہیں‘اباسین کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ موصوف کے چہرے پر غم  واندوہ کے آثار محسوس نہیں کئے جاسکتے موصوف کی شاعری سنی ضرور مگر پڑھنے کا موقع بہت ہی کم میسر آیا البتہ جو کچھ سنا اور پڑھا تو یہ ضرور محسوس ہوا کہ یہ آمد اور آور دکا ایک حسین امتزاج ہے‘ موصوف کا ادبی عروج اگرچہ ان کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت ہے تاہم اباسین کو آگے بڑھنے کے جو مواقع میسر ہوئے وہ بہت ہی کم لوگوں کے حصے میں آتے ہیں۔