تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں؟


 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے شعبے میں اگر کوئی قابل ذکر کام ہوا تو وہ غیر جمہوری ادوار میں ہوا ہے‘ صدر جنرل مشرف کے دور میں جب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو سال 2002ء میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کیا گیا اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کمیشن کے پہلے چیئرمین بنے تو موصوف کے دور میں تعلیم پر ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے زیادہ پیسے خرچ کئے گئے جو کہ بعض باخبر ذرائع کے مطابق ایک کھرب کے لگ بھگ تھے‘ جامعات کی تعداد میں اضافہ بھی سہی مگر ترجیح پہلے سے قائم یونیورسٹیوں کے استحکام پر دی گئی‘ہزاروں پی ایچ ڈی سکالر شپ اجراء کرکے بیرون ملک بھجوایاگیا اب یہ الگ بات ہے کہ بھجوائے گئے سکالروں میں سے ایک خاص تعداد جو کہ آسودہ حال زندگی کی متمنی اور تلاش میں تھی ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد بیرون ملک روپوش ہوگئے لیکن اکثریت دی گئی ضمانت کے مطابق واپس آکر اپنی اپنی جامعات میں فیکلٹی کا حصہ بن گئے‘ ہر یونیورسٹی میں جدید 
لیبارٹریوں کا قیام اور مختلف ایڈوانس سٹڈیز پروگرامات کا اجراء بھی مذکورہ غیر جمہوری دور کے خاتمے کے ساتھ ہی تعلیمی پیش رفت بھی رخصت ہوگئی اورپھر رفتہ رفتہ حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ جامعات کے ملازمین تنخواہوں کے لئے بھی سڑکوں پر بیٹھ گئے‘ تعلیمی ابتری کی بنیادی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ نظر آرہی ہے کہ عوامی حکومتوں نے اسے اپنی ترجیحات سے باہر رکھا اور وہ اس لئے کہ تعلیم صاحب اقتدار طبقے کا مسئلہ ہی نہیں‘ روئے زمین پر بسنے کیلئے ہر انسان کی چار بنیادی ضروریات ہوتی ہیں‘ 
خوراک‘ تعلیم‘ رہائش اورروزگار‘ مگر اس المیے کا کیا جواب ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار میں آنے والوں میں سے کسی کا بھی ان چار بنیادی ضروریات میں سے کسی ایک سے بھی کوئی سروکار نہیں‘مطلب یہ کہ یہ ان کے مسائل نہیں اور جب نہیں تو حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ یہ مسائل حل بھی نہیں ہو رہے ہیں‘ تعلیم میں حکومتی عدم دلچسپی کی ایک تازہ مثال یہ سامنے آئی ہے کہ ان سطور کی تحریر تک خیبرپختونخوا کی 32 سرکاری یونیورسٹوں میں سے 24 جامعات مستقل وائس چانسلر کی راہ تک رہی تھیں بعض معاملہ فہم لوگ تو اسے بھی تعلیم کے بارے میں حکومتی طبقوں کی عدم دلچسپی قرار دے رہے ہیں کہ جامعات ایکٹ کو تختہ مشق بنا کر ترامیم کرکر کے جامعات کی خود مختاری کو کھڈے لائن لگانے کے ساتھ ایک ایجاد کے طورپر وائس چانسلر کے ساتھ 
پرووائس چانسلر کی نشست یا آسامی بھی نکالی گئی مگر ہوا یہ کہ وائس چانسلر کی مدت ملازمت تین سال جبکہ پرووائس چانسلر کی دو سال رکھی گئی‘ تعلیم میں مذکورہ عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کا ہی نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی اکثر بالخصوص پرانی جامعات ان سطور کی تحریر تک مارچ کی تنخواہوں کی ادائیگی سے قاصر تھیں اس بدحالی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یونیورسٹیوں کے یوٹیلٹی بل جو کہ عشرہ ڈیڑھ قبل لاکھوں میں آتے تھے اب وہ کروڑوں میں پہنچ گئے ہیں جبکہ حکومتی گرانٹ یعنی تعلیمی بجٹ مسلسل کٹوتی سے دوچار ہوتا نظر آرہا ہے‘ اب تو سیانے لوگ یہ اندازہ بھی لگا رہے ہیں کہ حکومت نے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری یا نیلامی کا جو پروگرام بنادیا ہے ممکن ہے کہ جلد یا بہ دیر سرکاری یونیورسٹیوں کی نجکاری کی باری بھی آجائے اور یوں یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے کہ کوئی کام یا ڈیوٹی کرے یا نہ کرے تنخواہ کا حقدار ہوگا اور جب نہ ملے تو پھر سڑک پر بیٹھنا ان کا قانونی حق ہوگا؟