ما ضی کا پشاور 

ما ضی کا پشاور وسطی ایشیا  کے تین اہم اور تاریخی شہروں کا ہم پلہ تھا، بخارا، کا شغر اور کا بل سے تجارتی قافلے پشاور آتے تھے‘ پشاور کے تا جر قافلوں کی صورت میں کا شغر اور بخا را تک سفر کر تے تھے، یہاں تک کہ 1919میں کمیو نسٹ انقلا ب آیا، سر حد یں بند ہو گئیں تو پشاور کے کئی تاجر بخا را میں پھنس گئے اور وہیں بس گئے‘1987میں پشاور یو نیور سٹی کے پرو فیسر ڈاکٹر محمد انور خان وسطی ایشیا ئی ریا ستوں کے دورے پر گئے تو کئی پشاوری خاندانوں نے ان کی ضیا فت کرکے پشاور کی پرانی یا دوں کو تا زہ کیا، ڈاکٹر انور خان نے واپس آکر ایک سیمینار میں اس دورے کی تفصیلات بتا کر سامعین سے بے پنا ہ داد حاصل کی، کا شغر، بخارا، کا بل اور پشاور قدیم زمانے کی مشہور شاہراہ ریشم کی چار کڑیوں میں شمار ہوتے تھے آج یہ بھو لی بسری کہا نیاں معلوم ہوتی ہیں مگر اتنی بھو لی بسری بھی نہیں خو قند وسطی ایشیا  سے پشاور آنے والے تا جروں کی اولا د آج بھی پشاور کے مضا فاتی قصبہ بخشو پل چار سدہ روڈ پر جا ئیداد اور کا روبار کی ما لک ہے ما ضی کا یہ رشتہ چترال تک پھیلا ہوا ہے کیونکہ چترال بھی شاہراہ ریشم کا حصہ تھا مشہور محقق جی جے الڈر نے لکھا ہے کہ دریائے آمو کے طاس میں جب جنگیں چھڑ تی تھیں تو تجارتی کا روان چترال کے راستے سفر کو محفوظ اور نفع بخش قرار دے کر اس راستے کا رخ کر تے تھے‘ بنیا دی طور پر یہ سفر کا شغر، یاکند اور ختن سے شروع ہوتا تھا جو چینی ترکستان کے اہم شہر ہو اکر تے تھے کا شغر جنو بی چین کے صو بہ زنجیا نگ کا مشہور شہر ہے اس شہر سے آنے والے تا جر جب چترال سے گذر تے تو چترال کو کا شغر خور د یعنی چھوٹا کا شغر کہہ کر پکا رتے تھے‘ اس وجہ سے چترال کا نا م کا شغر سے بگڑ کر قشقار پڑ گیا تھا، مشہور صو فیا یو سف حاجب، ثا بت عبد الباقی  اور حا جی نیا ز  کے مزارات کا شغر میں ہیں، آج یہ 5کروڑ کی آبادی کا شہر ہے اس کی بر آمد ات کا حجم 9ارب ڈالر سالانہ کے برا بر ہے، کا شغر سے ایک شاہراہ قراقرم ہائی وے کے نا م سے گلگت اور اسلا م آباد تک آتی ہے‘ دوسری شاہراہ تاشقرغن کے راستے تا جکستان اور ازبکستان سے ہو تی ہوئی کا بل تک جا تی ہے‘ 4000سال قدیم شہر آج بھی مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا  اور مغربی ایشیا کے درمیان راستوں میں اہم کر دار اداکر تا ہے، پا ک چین فرینڈ شپ  ایسو سی ایشن  نے کا شغر کو پشاور کا جڑواں شہر قرار دینے کی تجویز دی ہے بخا را وسطی ایشیا میں قدیم دور کے مغربی ترکستان کا تاریخی شہر ہے‘اما م اسما عیل بخا ری ؒ کا مزار اس شہر میں ہے، تاریخی مسا جد اور مزارات کی وجہ سے یو نیسکو (UNESCO) نے اس شہر کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے اور ورلڈ ہیرٹیج لسٹ میں شامل کیا ہے بخار اسے ما ل تجارت آج بھی کابل کی ما رکیٹوں میں آتا ہے، کا بل کا شہر افغانستان کے وسطی علا قے میں کو ہ ہندوکش کی وادی کے اندر واقع ہے ہندو کش کا پہاڑ ی سلسلہ مشرق میں چترال سے شروع ہو کر مغر ب میں افغا نستان تک جا تا ہے، کا بل اور چترال شہر میں ایک مما ثلت یہ بھی ہے کہ دونوں سطح سمندر سے 6ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں دونوں کی آب وہوا میں حیرت انگیز مما ثلت ہے دونوں کے انار، انگور اور چارمغز ایک جیسا ذائقہ رکھتے ہیں، زما نہ قدیم کے تجارتی کا روانوں کے لئے ما ضی کا پشاور صرف گذر گاہ نہیں بلکہ منزل کی حیثیت بھی رکھتا تھا، اس شہر بے مثال کا تعمیراتی ورثہ بدھہ مت کے دور کی یا د دلا تا ہے گند ھا را سلطنت کا پا یہ تخت پشکلاوتی پشاور کے نواح میں مو جود ہ شہر چار سدہ کے قریب واقع تھا راجہ کنشکا کی کئی یا د گار یں اس خطے میں پائی جا تی ہیں، اکیسویں صدی میں جس طرح کا شغر اور بخا را کی قدیم یا د گاروں کا خیال رکھا جا تا ہے اور جس طرح جدید شاہرا ہوں کے ذریعے ان شہروں کو آج کی دنیا کے بڑے مراکز سے جو ڑا جا رہا ہے وہ تو جہ پشاور اور کا بل کو نہ مل سکی، چاہیے تو یہ تھا کہ جدید دور میں شاہراہوں اور ریل کی پٹڑیوں کے ساتھ ہوائی سفر کے ذریعے بھی پشاور کو کا شغر، بخا را، کا بل اور دوسرے وسط ایشیائی شہروں مثلاً اورومچی، دوشنبہ، خوروگ، سمر قند کے ساتھ ملا یا جاتا لیکن گذشتہ دو سالوں سے پشاور اور جدہ کے درمیان فضا ئی سفر کی سہو لت بھی چھین لی گئی ہے، وسطی ایشیاکے ساتھ قدیم تجارتی اور سیا حتی راستوں کا احیاء  پشاور کا حق ہے اللہ کرے پشاور کو ایک بار پھر ماضی جیسی اہمیت مل جا ئے۔