بیسک سٹیک ہولڈر کہاں کھڑے ہیں؟

جامعات میں اگر کسی کا گزربسرہے‘ ملازمت ہے یا دوسرا روزگار‘یہ تمام تر طلباء ہی کے مرہون منت ہے مطلب اگر یونیورسٹی سے طلباء کو نفی کیا جائے تو محض عمارتیں رہ جائیں گی مگر اس کے باوجود طلباء کو فیصلہ سازی سے دور رکھا جارہاہے‘ جامعات کے طلباء عاقل و بالغ بھی ہیں اور ہر بنیادی حق اور ہر مسئلے کے حل کا پختہ شعور اورادراک بھی رکھتے ہیں‘ ملک میں ایک طویل غیر جمہوری دور میں جب تعلیمی اداروں میں طلباء یونین سازی کو ممنوع قرار دیا گیا اور بعدازاں ملک کی بڑی عدالت نے اس کی توثیق بھی کی تو طلباء تنظیمیں تاحال اس کی بحالی کیلئے آواز اٹھاتی رہی ہیں مگر کچھ نہیں بنا حالانکہ ایک جمہوری دور کے وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے غالباً اپنے پہلے خطاب میں طلباء یونین سازی کی بحالی کا اعلان بھی کیا مگر طلباء پھر بھی محروم رہے اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ معاشرے کے بعض سنجیدہ حلقے اس لئے طلباء یونین بازی کے حق میں نہیں کہ طلباء اپنے تعلیمی مسائل اور بحیثیت طلباء اپنے بنیادی حقوق‘ بہتر تعلیمی ماحول اور آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملنے کی بجائے جامعات سے باہر کی سیاسی جماعتوں سے اس قدر وابستگی رکھتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا لیکر تعلیمی اداروں میں سیاسی شور شرابہ اور نعرہ بازی پر اتر آتے ہیں اس کی ایک واضح مثال پشاور یونیورسٹی کیمپس ہے جہاں پر ہر سال ہر طلباء تنظیم اپنی سیاسی طاقت کامظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کر دیتی ہیں یوں کئی بار تصادم بھی رونما ہوئے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی یونیورسٹی میں آکر سیاسی تقاریر کرنا معیوب نہیں سمجھتے‘ ایک ثقہ روایت ہے کہ خدائی خدمتگار تحریک کے بانی عبدالغفار خان المعروف باچا خان جب کابل میں اپنی خود ساختہ جلاوطنی کو خیرباد کہتے ہوئے اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں واپس آئے تو اس وقت ان کے چھوٹے برخوردار عبدالعلی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے مگر برخوردار نے اپنے باچا خان جیسے والد کی یہ خواہش پوری نہیں کی کہ وہ یونیورسٹی میں آکر طلباء سے خطاب کریں‘ اسے کہتے ہیں اصول پسندی‘ قواعد و ضوابط کی پاسداری اور قانون کی بالادستی‘ تو بات جامعات کے حقیقی سٹیک ہولڈر یعنی طلباء کی ہو رہی تھی اب چونکہ صوبائی حکومت جامعات ایکٹ مجریہ2012ء میں ترامیم کرکے دوسرا ماڈل ایکٹ (نظرثانی)2016ء لاکر نافذ کرچکی ہے مگر اس کے باوجود ایک بار پھر ایکٹ2012ء میں مزید ترامیم لانے نکلی ہے‘ اساتذہ انتظامیہ اور بعدازاں نان ٹیچنگ سٹاف سے مشاورت ہو چکی ہے مگر حقیقی سٹیک ہولڈر یعنی طلباء  نظروں سے اوجھل ہیں‘ ان میں اسلامی جمعیت طلبہ یعنی جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم نے ایک آدھ مرتبہ ہلکی سی آواز اٹھائی ہے مگر دوسری تنظیمیں تقریباً خاموش ہیں‘ اس بارے میں اساتذہ بھی کچھ کہنا آبیل مجھے مار کے مترادف سمجھتے ہیں جبکہ  انتظامیہ سے تو ایسی کوئی توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی‘ جامعہ پشاور کے اساتذہ کے مقتدر حلقے کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مزید ترامیم کا مقصد جامعات کی رہی سہی خود مختاری کو سلب کرکے مکمل طور پر اپاہج بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں‘ ان کا موقف ہے کہ جامعات کامسئلہ ایکٹ یا ترامیم نہیں بلکہ ضرورت تو یہ ہے کہ پالیسی ساز ادارے او رحکومت تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرکے جامعات کی مالی ابتری کو دور کرے بصورت دیگر ترامیم کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مزید سیاسی  اور ریاستی مداخلت کیلئے راہ ہموار ہونے اور اپنی مرضی ٹھونسنے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا۔