لو کل گور نمنٹ ایکٹ 2001ء میں ترمیم کر کے 2013ء کا ایکٹ لا یا گیا اس میں تر میم کر کے 2022ء کا ایکٹ لا یا گیا اس میں تر میم کر کے 2024ء کا ایکٹ لا نے کی منظوری دی گئی ہے تا کہ آنے والے بجٹ میں بلدیا تی اداروں کو فنڈ جاری کرنے کا اختیار محکمہ خزانہ کو مل سکے‘یہ اختیار 2022ء والی ترمیم میں واپس لیا گیا تھا بلدیا تی اداروں کو فنڈ جار ی کرنا بہت اچھا کام ہے اس کو یقیناً سرا ہا جا ئیگا اور اس کی تعریف و تحسین ہو گی اخبار بین حلقوں کو حیرت اس بات پر ہو تی ہے کہ کسی قانون یا ایکٹ میں اتنی آسانی سے باربار ترمیم کیوں ہو تی ہے اور کیسے ہو تی ہے؟بر طا نیہ میں کوئی لکھا ہوا آئین نہیں ہے آئین کی کوئی کتاب نہیں ہے کوئی دستخط شدہ ایکٹ یا قانون نہیں ہے‘ روا یات پر مبنی زبا نی آئین ہے وہ لو گ اپنی ضرورت کے لئے اس میں تبدیلی نہیں لا تے بلکہ اپنی ضروریات اور خوا ہشات کو اُس غیر مرئی، غیر تحریری بلا دستخط قانون کے تا بع کر تے ہیں‘آئین اور قانون کو نہیں بدلتے اپنے آپ کو بد لتے ہیں ہم اپنے آپ کو آئین اور قانون یا ایکٹ کے تا بع کر نے کے بجا ئے فوراً ایکٹ میں تبدیلی لا کر اپنی خوا ہش پوری کر تے ہیں، چنا نچہ 2013ء میں لو کل گورنمنٹ ایکٹ کو اپنی سہو لت کے لئے بدل دیا گیا پھر 2022ء میں حکمرانوں کو خیا ل آیا کہ اس قانون میں ویلج کونسل، نیبر ہڈ کونسل، تحصیل کونسل، سٹی کونسل اور ٹاؤن کونسل کو فنڈ جا ری کرنے کا ذکر ہے ان کونسلوں کو کسی قسم کا فنڈ نہیں دینا چاہئے اس کا علا ج یہ ہے کہ ایکٹ میں تر میم کی جا ئے تا کہ نہ رہے با نس نہ بجے بانسری‘اگر مو جودہ حکومت کو ترمیم واپس لینے کے لئے ایک اور تر میم کا خیال نہ آتا تو بلدیا تی ادارے آنے والے ما لی سال کے دوران بھی پچھلے دو ما لی سال کی طرح تر قیا تی وسائل اور عوام کے جا ئز قانونی اور آئینی حق سے محروم ہو تے اس ترمیم کو واپس لینے کے پس منظر میں بلدیا تی اداروں کے منتخب نا ظمین، چیئرمینوں اور میئروں کی انتھک محنت، جدو جہد اور مسلسل دو سال کے زبر دست احتجا ج کا بڑا ہا تھ ہے‘ یہ بھی ایک غلط روا یت قائم ہو چکی ہے کہ لو گوں سے ان کے جا ئز اور قانونی حقوق چھین کر ان کو ہڑ تا ل، احتجاج اور تا لہ بندی پر مجبور کرو، معمولی شور شرابے پر کان نہ دھرو، یہاں تک کہ بڑی بد امنی اور تا لہ بندی کی نو بت آجا ئے تو حر کت میں آجا ؤ اور عوام کا حق ان کو واپس کرنے پر غور کرو، یہ بری عادت اب پکی ہو چکی ہے، میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ملا زمین کو چھ مہینوں تک تنخوا ہیں نہیں دی جا تیں، وہ درخواست بھیجتے ہیں، درخواست کوئی نہیں پڑھتا، وہ پریس کانفرنس کر تے ہیں اخباری تراشے کوئی نہیں پڑھتا وہ احتجاج کی تاریخ دے دیتے ہیں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی آخر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ٹی ایم اے کا عملہ صفائی ہڑ تال پر جا تا ہے‘ ایک ہفتہ، دو ہفتے، تین ہفتے، چار ہفتے گذر جا تے ہیں کسی کو ہڑ تالی ملا زمین کے مطا لبات سننے یا پڑھنے کی تو فیق نہیں ہو تی جب شہر کی گلیاں کچرے کے ڈھیر میں بدل جا تی ہیں تو حکومت حر کت میں آتی ہے مقا می انتظا میہ سے رپورٹ ما نگتی ہے اور ملا زمین کی تنخوا ہ اداکرنے کے لئے فنڈ جا ری کر تی ہے، حا لانکہ رولز آف بزنس یا ایس او پیز کے مطا بق ڈپٹی کمشنر کی پہلی رپورٹ پر عمل ہو نا چا ہئے تھا یہ بات بھی منظر عام پر آجا تی ہے کہ اعلیٰ حکام میونسپلٹی کے عملہ صفائی کو عدالت سے حکم لا نے کا مشورہ دیتے ہیں تا کہ عدالتی حکم کا بہا نہ بنا کر فنڈ جا ری کیا جا سکے یہ شکر کا مقام ہے کہ منتخب حکومت کو بلدیا تی اداروں کی ما لی مشکلات دور کرنے کی ضرورت کا احساس ہو گیا ہے یہ مسئلہ کا بینہ میں پیش کیا گیا، کا بینہ نے 2022ء والی تر میم واپس لینے کی منظوری دیدی اب نئے ما لی سال کے بجٹ میں بلدیاتی اداروں کو 2001کے لو کل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت با قاعدہ فنڈ جا ری کرنے کی راہ ہموار ہو جائیگی بجٹ آنے تک تر میم بھی واپس لی جائیگی آئندہ سال کے بجٹ میں بلدیات کو تر قیا تی فنڈ بھی ملیں گے‘ آئندہ لو کل کونسلوں کے عملہ صفائی کو اپنی تنخوا ہوں کے لئے ہڑ تال کرنے کی نو بت نہیں آئے گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
سر راہ چلتے چلتے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ویٹی کن کی سلطنت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم اور شاعر
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اٹلی اور نشاۃ ثا نیہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
دو حکمران
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی