سیا حت اور سڑ کیں 

گرمیوں کا مو سم آتے ہی سیا حوں کا رخ پہا ڑی علا قوں کی طرف ہو تا ہے حکومت بھی سیا حت کو فروغ دینے کے اعلا نات کر تی ہے خیبر پختونخوا کے سیا حتی مقا مات میں نا ران کا غان اور سوات کو 1960ء کی دہا ئی میں ترقی ملی اور سڑکیں بن گئیں، چترال بھی کا لا ش ثقا فت اور 25ہزار فٹ سے زیا دہ بلند پہاڑی چو ٹیوں کی وجہ سے سیاحوں کیلئے پر کشش علا قہ ہے مگر اس کو سڑ کوں سے اب تک محروم رکھا گیا ہے نہ کا لا ش وادیوں کے لئے پختہ سڑک بنی ہے نہ شندور کے پر فضا مقام کے لئے پختہ سڑک بنی ہے نہ تریچ میر کے بیس کیمپ کے لئے پختہ سڑک بنی ہے، یہ بات اخبار بین حلقوں کے لئے حیرت اور تعجب کا باعث ہو گی کہ چترال کے دو اضلاع اپر اور لوئیر چترال کا مجموعی رقبہ 15ہزار مر بع کلو میٹر ہے وادی کی لمبائی اراندو سے بروغیل تک 485 کلومیٹر ہے پختہ سڑک کی کل لمبائی 140کلو میٹر ہے، یعنی 200کلو میٹر سڑک بھی دستیاب نہیں اگر ایک سڑک کی بات کی جا ئے تو چترال شندور روڈ پر1989ء سے اب تک 35سالوں میں 13بار کام شروع ہو ا جبکہ 12دفعہ کام بند ہوا‘بونی بو زوند روڈ افغانستان کی سر حد کو جا نے والا اہم راستہ ہے اس پر 2008ء میں کام شروع ہوا تھا 6بار کام بند ہوا چنا نچہ سڑک اب تک نا مکمل ہے، چترال گرم چشمہ روڈ بھی افغان سر حد کو جا تا ہے اس پر 1985ء میں کا م شروع ہوا 39سالوں کے دوران 10بار کام بند ہوا سڑک ادھوری رہ گئی اور ادھوری ہے، کا لا ش آبا دی کی تین وادیوں کو جا نے والی سڑک اول روز سے لاوارث چلی آرہی ہے کسی بھی دور میں اس سڑک کو تعمیر کرنے کی سکیم نہیں آئی خدا خدا کر کے 2021 ء میں کا لا ش ویلی روڈ کی سکیم آئی تھی 2022 ء میں اس پر کام روک دیا گیا دو سال بعد ایک بار پھر کا لا ش ویلی روڈ پر کام شروع کرنے کا اعلا ن ہوا ہے، مگر کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کا لا ش ویلی روڈ بنے گی کیونکہ لو گوں نے کا م شروع ہونے کے بعد باربار کام بند ہو تے دیکھا‘ اس لئے ہوگا، ہو گی اور اس طرح کے مستقبل کی بات کرنے والے الفاظ کو اب لو گ سنجیدہ نہیں لیتے، چنا نچہ چترال کے دو اضلا ع میں ہر سال نئے سیاح آتے ہیں، جو ایک بار آیا وہ کچی سڑ کوں پر دوبارہ سفر کرنے سے توبہ کرتا ہے اور اپنی اولا د کو نصیحت کر تا ہے کہ اس طرف کا رخ نہ کرو، گاڑی کا بھی اور تمہارا اپنا بھی کچومر نکل جا ئیگا، 24سال پہلے سیا حوں کے لئے پر کشش پہا ڑی علا قوں میں پاکستان ٹورزم ڈیو لپمنٹ کار پو ریشن (PTDC) کے پر آسائش ہو ٹل ہوا کر تے تھے، اٹھارویں ترمیم کے بعد ان کو بند کیا گیا اٹھارویں تر میم لا نے والوں کا خیال یہ تھا کہ کنکرنٹ لسٹ ختم ہونے سے وفاق پر کام کا بوجھ کم ہو گا صوبے با اختیار ہونگے لیکن مر کز کے پاس سارے سفید ہا تھی اب بھی مو جو د ہیں صوبوں کو کوئی اختیار نہیں ملا نظر آنے والا کام یہ ہے کہ پی ٹی ڈی سی ہو ٹل بند ہو گئے اس سال اپریل کے مہینے میں چترال کے کاغلشت فیسٹیول کی ما رکیٹنگ ہوئی مئی کے مہینے میں کا لا ش فیسٹیول چلم جو ش کی ما رکیٹنگ کی گئی، دونوں جگہوں پر جا نے کے لئے منا سب سڑکیں نہیں تھیں گاڑیاں بمشکل 12کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی تھیں اب جون کے لئے شندور پو لو فیسٹیول کی مارکیٹنگ کی جا رہی ہے اپر دیر اور لواری ٹنل سے شندور جا نے والی سڑک کی لمبائی 240کلو میٹر ہے اور اس راستے کی حا لت ایسی ہے کہ 6گھنٹے کا سفر 15گھنٹوں میں طے ہو تا ہے گردو غبار، مٹی اور دھول اس پر مستزاد ہے اگر حکومت پہاڑی علا قوں کے صحت افزا مقامات میں سیا حت کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہے توچترال کی سڑکوں کے منصو بوں کو مکمل کرنا لا زمی ہو گامشکل یہ ہے کہ متبادل راستہ کوئی نہیں سیا حت اور سڑکیں لا زم و ملزوم ہیں جہاں پکی سڑکیں نہ ہوں وہاں کیلئے سیاحت کی ما رکیٹنگ بہت مشکل ہو گی اسلئے جو ہوا سو ہوا، آنے والے دو چار سالوں میں چترال کی سڑ کوں پر کام بند نہیں ہونا چا ہئے اور گذشتہ تین دہا ئیوں میں بار بار کا م بند ہونے سے تعمیر شدہ کام پر جو فنڈ ضا ئع ہوا یا افراط زر کی وجہ سے سکیم کی لا گت میں جو اضا فہ ہوا ان تما م نقصانات کا حساب کتاب ہونا چاہئے،ترقی یا فتہ اقوام کا یہ نعرہ ہوتا ہے پہلے سڑکیں پھر سیا حت۔