عدم شنوائی کی سیریز

قدیم درسگاہ کے معلّمین نے ایک بار پھر ایک مراسلہ یا خط کے توسط سے صوبائی حکومت کی توجہ جامعہ پشاور کے سلگتے ہوئے مسائل کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے یہ پہلی بار نہیں بلکہ اس سے قبل بھی چانسلر اور وزیراعلیٰ سمیت صوبے کے مقتدر حلقوں اور صاحب اختیار کو خطوط لکھے گئے ہیں مگر شنوائی نہ ہو سکی۔ پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا) کے مکتوب میں گورنر‘ وزیراعلیٰ‘ چیف سیکرٹری اور محکمہ اعلیٰ تعلیم سے صوبے کی 25 جامعات میں وائس چانسلروں کی تقرری کیلئے اکیڈمک سرچ کمیٹی کی طرف سے چار مہینے قبل بھجوائی گئی سفارشات یا امیدواروں کی شارٹ لسٹ سے بلاتاخیر تقرریاں عمل میں لانے‘مالی سال 2024-25ء کے صوبائی بجٹ میں صوبے کی یونیورسٹی کے لئے کم از کم 60 فیصد بجٹ مختص کرنے اور اس کی تقسیم یا ادائیگی کی ہر یونیورسٹی کی جسامت اور اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے یقینی بنانے‘ بیل آؤٹ پیکیج کی فراہمی‘وصوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو فعال بنانے جبکہ 
جامعات ایکٹ 2012ء میں معروضی حقائق کے مطابق تما م تر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنے پر زور دیا گیا ہے۔ مذکورہ مراسلہ جامعات‘ سٹیک ہولڈرز اور تعلیمی حلقوں میں موضوع بحث یا زیر بحث بنا ہوا ہے‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خطوط سے کچھ بھی برآمد نہ ہو سکا اور آئندہ بھی کسی قسم کی توقع رکھنا لاحاصل ثابت ہو گا۔ ایک جذباتی حلقہ جس میں طلبہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کے کرتا دھرتا سرفہرست ہیں ایک ایسے بھرپور احتجاج کی تجویز دے رہے ہیں جو کہ بقول ان کے ایوانوں کے در و دیوار ہلا کر رکھ 
دے‘ ان تمام آراء اور بحث و تکرار میں ایک سنجیدہ حلقے کی یہ بات مجھے قدرے زیادہ پسند آئی کہ پیوٹا کے خطوط کا نہ تھمنے‘ نہ رکنے والا سلسلہ اس مشہور مزاحیہ شعر کے مصداق لگتا ہے کہ
میں ہوں تمہاری ناک کٹانے کی فکر میں 
کہتی ہے تو کہ میرے لئے نت بنا کے لا
ان سطور میں پہلے بھی کہا گیا ہے کہ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو بلاتفریق‘ بلاامتیاز ان کے چار مسائل یا ضروریات ہوتی ہیں یعنی خوراک‘ رہائش‘ تعلیم و تربیت اور ملازمت‘ کاروبار یا روزگار‘ روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان مذکورہ چار مسائل کا سامنا کر رہا ہے مگر یہ اس ملک یا خطے میں حل ہوا کرتے ہیں جہاں پر سیاستدان اور صاحب اختیار طبقے یا حلقے اسے اپنے مسائل سمجھیں اور اپنے مسائل یا ضروریات وہ تب سمجھیں گے جب وہ ان سے دوچار ہو جائیں لیکن شاید کہ ایسا ہو جائے کیونکہ جب سے یہ ملک 
معرض وجود میں آیا ہے تاحال کسی دور میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ عوام اور خواص کے مسائل اور ضروریات اور حالت زیست ایک جیسی ہو‘ بہ الفاظ دیگر ان مسائل سے یہاں یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت اور اس نظام کے صاحب اختیار حلقے کا کوئی تعلق اور نہ ہی کوئی واسطہ‘ یہی وجہ ہے کہ متذکرہ چار مسائل حل ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے چلیں یا بند ہوں‘ کوئی تعلیم و تربیت پائیں یا محروم رہیں‘ وائس چانسلر ہوں یا نہ ہوں‘ ملازمین کی تنخواہوں پنشن اور روزمرہ اخراجات کے لئے جامعات کے ہاں پیسے ہوں یا نہ ہوں‘ میرے خیال میں یہ حکومت کے مسائل ہے ہی نہیں‘ میرے نزدیک تو ایک سنجیدہ دور اندیش حلقے کی یہ بات یا خدشہ نہایت قابل غور لگتا ہے کہ موجودہ حالت تو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مستقبل قریب میں سرکاری جامعات کا چلنا ناممکن ہو جائے گا‘ ایسے میں تو ممکن ہے کہ انہیں نجکاری کی فہرست میں شامل کیا جائے۔