ہرچند کہ ملک کی جامعات کی اکثریت میں وائس چانسلروں کی عدم تقرری کا مسئلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی پہنچ گیا ہے مگر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی خالی نشستیں تاحال پر ہونے کی منتظر ہیں جہاں تک خیبرپختونخوا کا تعلق ہے تو یہاں پر پہلے تو32میں سے19 یونیورسٹیاں خالی تھیں مگر اب عرصہ ہواکہ یہ تعداد25 ہوگئی ہے‘ مزید عدم توجہی اور تاخیر سے مزید جامعات کا خالی ہونا بھی یقینی ہے ویسے اعلیٰ تعلیم یا یونیورسٹیوں کی مالی بدحالی اور انتظامی امور میں حکومت کی عدم دلچسپی کی جو فضا ایک عرصہ سے قائم ہے اور اختیارات کے حوالے سے جو چپقلش اور ہیجان اس وقت نظر آرہا ہے اس کے ہوتے ہوئے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ جامعات کے معاملات اور حالت درست سمت گامزن ہو کر استحکام کی فضا قائم ہوجائے گی ‘اس وقت تو حکومت نہ صرف ایک غیر ضروری کام کے پیچھے پڑ گئی ہے بلکہ صوبے کی جامعات کی انتظامیہ اورفیکلٹی کو بھی مصروف کردیا ہے تاکہ سال2012ءکے ایکٹ میں پہلے سے ہونے والی ترامیم کے نتیجے میں ایکٹ بلکہ ماڈل ایکٹ مجریہ2016ءکے اجراءکے باوجود مزید ترامیم لائی جائیں؟ ویسے جامعات کے معاملہ فہم حلقوں کا یہ سوال جواب طلب لگتا ہے کہ مزید ترامیم کی آخر ضرورت ہی کیا ہے‘ سوائے اس کے کہ وائس چانسلروں اور باڈیز سمیت یونیورسٹیوں کے ہر سٹیک ہولڈر حلقے کو مزید بے اختیار کرکے ان معاملات سے چانسلر کے آئینی اور قانونی تعلق کو بھی یکسر ختم کیا جائے‘ سنجیدہ حلقوں کے نزدیک جامعات کے جو امور اور معاملات ریاستی اداروں کی توجہ کے منتظر ہیں وہ یونیورسٹیوں میں بازاری کلچر اور کاروباری فضا کو ختم کرکے حقیقی تعلیمی ماحول کی بحالی ‘ جامعات کو بے تحاشہ مہنگائی اور تنخواہوں ‘پنشن ‘مراعات اور دوسرے اخراجات میں ہر سال اضافے کے پیش نظر تعلیمی بجٹ میں100فیصد اضافہ اور جامعات میں ہر سطح پرمکمل احتساب اور جوابدہی کے کلچر کو قائم کرنا ہے جہاں تک ایکٹ یا قواعد و ضوابط کی بات ہے تو معاملہ فہم لوگوں کی رائے ہے کہ2012ءاور2016ءایکٹ کو ایک طرف رکھ کر جامعات اب بھی سال1974ءکے ایکٹ سے بخوبی چل سکتی ہیں آزمائش شرط ہے ابتری کی انتہاءدیکھئے کہ ملک کی قدیم اور صوبے کی بڑی درسگاہ جامعہ پشاور میں سکیورٹی گارڈ کی 70سے زائد جگہیں گزشتہ ڈیڑھ سال سے خالی پڑی ہیں جس کے سبب کیمپس میں سکیورٹی کی حالت نے ایک سوالیہ نشان کی شکل اختیار کر رکھی ہے مگر حکومتی مداخلت اور رکاوٹ کے باعث بھرتی لٹکی ہوئی ہے جامعہ میں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ کیڈر کی 40 فیصد پوسٹیں خالی پڑی ہیں مگر آئے روز کی حکومتی پابندیوں اور مالی وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا80 سے زائد مرد اور خواتین اساتذہ پی ایچ ڈی ہولڈر ہونے کے باوجود ترقی کے منتظر ہیں ان میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جوعرصہ آٹھ اور دس سال سے لیکر پندرہ سولہ سال سے محروم چلے آرہے ہیں یہ تو بھلا ہو پروفیسرز کا کہ وہ اپنی تدریسی ڈیوٹی کیساتھ ساتھ نہایت قلیل بلکہ برائے نام معاوضے پر انتظامی پوسٹیں بھی چلا رہے ہیں جامعہ میں اگر افسران کی تمام تر اسامیاں پر ہو جائیں تو اخراجات اور بجٹ خسارے میں دو گنا اضافہ کے سبب یونیورسٹی کا مالی طور پر چلنا بالکل ناممکن ہو جائے گا اس وقت ان معاملات میں ریاستی عدم دلچسپی‘ عدم تعاون اور عدم اعتماد کی جو فضا قائم ہے اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ملک بالخصوص خیبرپختونخوا میں تعلیم کامستقبل روشن ہوگا ایک جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند سال سے پشاور یونیورسٹی کیمپس کا ماحول ناقابل استعمال ٹریفک‘ تہہ بازاری‘ سیاسی ہلڑ بازی اور انتظامی غفلت کی وجہ سے جس بربادی سے دوچار ہے تو کیا یہ حالت صوبائی اسمبلی‘ حکومت‘ ادارہ تحفظ اور کیپٹل ٹریفک پولیس کی نظروں سے اوجھل ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر اس بربادی سے یونیورسٹی کیمپس کو بچاکر وہاں پر ایک حقیقی تعلیمی ماحول بحال کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آیا اس بابت حکومت اور متعلقہ ریاستی ادارے جامعات کی انتظامیہ فیکلٹی اور پولیس سے جواب طلبی نہیں کر سکتے؟۔
اشتہار
مقبول خبریں
عظمت رفتہ کی بحالی کا عزم
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے