خبر آئی ہے کہ صو بائی دار الحکومت میں ٹریفک کے نظا م کو سگنلوں کے پرانے جھنجھٹ سے آزاد کرنے کے لئے خاص خا ص مقا مات پر شا ہراہ کے اوپر سے یا انڈر گراؤنڈ الگ سڑک گذار نے کے منصو بے پر کا م ہوگا‘ ابتدائی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پشاور میں 8انڈر پاسز اور فلا ئی اوور ز بنیں گے، ان میں سے5کو رنگ روڈ پر بنا یا جا ئے گا‘ 3انڈر پاسز اور فلا ئی اوورز شہر کی دیگر شا ہرا ہوں پر تعمیر ہوں گے، صو بائی دار الحکومت پشاور کے بازاروں کی تزئین وآ رائش اور اندرون شہر صفا ئی کے منصو بوں پر عملدر آمد کے ساتھ ساتھ شاہرا ہوں کو سگنل فری کرنے کا یہ مفید منصو بہ مکمل ہوا تو پشاور بھی وطن عزیز کے ان شہروں میں شا مل ہو گا جہاں ٹریفک کا نظام جدید دور کے تقا ضوں سے ہم آہنگ ہوا ہے‘ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جا ئے تو سڑ کوں پر ٹریفک کی روا نی کسی بھی شہر کا وہ آئینہ ہو تا ہے جو با ہر سے آنے والے کسی بھی سیا ح کو شہر کا چہرہ دکھا تا ہے، سڑ کوں کی صفا ئی اور ٹریفک کی سہو لیات کو دیکھ کر شہری نظم ونسق، حکومت کی مستعدی، منصو بہ بندی اور شہریوں کی ذمہ دارانہ سما جی زند گی کا پتہ چلتا ہے اب کر اچی، لا ہور اور اسلا م آباد کے بعد پشاور کو سگنل فری شاہرا ہیں مل گئیں تو شہریوں کی جا ن میں جا ن آجا ئیگی۔
اس وقت صورت حا ل یہ ہے کہ اسلا م آباد سے پشاور آتے ہوئے دو گھنٹے لگیں تو پشاور ٹول پلا زہ سے حیا ت آباد پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ جا تا ہے‘چند سال پہلے کر اچی کا ایسا ہی حا ل تھا سہراب گوٹھ سے کیماڑی جا نے میں 3گھنٹے لگتے تھے، سگنل فری ہونے کے بعد 3گھنٹے کا سفر آدھ گھنٹے میں طے ہو تا ہے، یہی حال اسلا م آباد اور لا ہور کا ہے، دنیا کے جن ملکوں میں شہریوں کو بنیا دی سہو لتیں ملی ہوئی ہیں ان تما م ملکوں کے اندر دو مشترک خصو صیات پائی جا تی ہیں پہلی خصو صیت یہ ہے کہ تر قیا تی کام قانون اور اصول کے تحت ہوتے ہیں، تر قیا تی کا موں میں سیا سی مدا خلت نہیں ہو تی،کوئی بھی سیا سی شخصیت کسی منصو بے کا اعلا ن نہیں کر سکتی یہ سرکاری آفیسروں اور انجینئروں کی ذمہ داری ہوتی ہے، پیشہ ورانہ مہا رت کے حا مل تر بیت یا فتہ حکام شہری سہو لتوں کی منصو بہ بندی کر تے ہیں، سیا سی حکومت تبدیل ہو جا ئے تو تر قیا تی کام بند نہیں ہوتا پہلے کی طرح جا ری رہتا ہے کیونکہ سسٹم چلتا رہتا ہے سسٹم میں رکا وٹ نہیں آتی، پا لیسی تبدیل نہیں ہو تی‘ دوسری مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ مقا می حکومتیں مستحکم ہو تی ہیں، شہری حکومت مضبوط اور طا قتور ہو تی ہے، شہری حکومتوں کے اتنے وسائل اور اختیار ات ہوتے ہیں کہ وہ ریلوے کا نظام چلا تی ہیں، فضا ئی کمپنیاں بنا تی ہیں، سمندری جہا ز چلاتی ہیں، بڑے بڑے کارخا نوں کی ما لک ہوتی ہیں مقامی حکومتوں میں بھی اختیارات سب تر بیت یا فتہ حکام کے ہا تھوں میں ہوتے ہیں، سیا سی حکومت کے آنے جا نے سے پا لیسیاں تبدیل نہیں ہو تیں، قانون کی حکمرانی متا ثر نہیں ہو تی اس لئے عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کا رشتہ بر قرار رہتا ہے، حکومت اور عوام معروف اخباری زبان میں ایک پیچ پر ہوا کر تے ہیں‘ مو جود ہ معا شی حا لات میں تر قیا تی کا موں کو متا ثر ہونے سے بچا نے کے لئے وطن عزیز میں ایسا ہی کلچر لا نے کی ضرورت ہے، یہ امر بیحد خو ش آئند ہے کہ نئے ما لی سال کے بجٹ میں صو بائی دارالحکومت پشاور کو بڑا تر قیاتی پیکچ دیا گیا ہے بس رپیڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) مکمل ہونے کے بعد پشاور کے شہر یوں کو ٹرانسپورٹ کی معیا ری سہو لت مل چکی ہے، اب لو گوں کو غیر معیاری ویگنوں میں دھکے کھانے نہیں پڑتے، پشاور آنے والے سیا حوں کو بھی کلینروں کے ہا تھوں ذلیل ہونا نہیں پڑ تا اگر پشاور کو 8انڈر پاسز اور فلا ئی اوورز کی تعمیر کے بعد سگنل فری بنا یا گیا تو شہر میں ٹریفک جا م سے نجا ت مل جا ئیگی اور وقت کے ساتھ توا نا ئی کی بھی حیرت انگیز بچت ہو گی۔