سیا حوں کا پشاور 

کسی بھی شہر میں داخل ہونے سے پہلے سیا ح اس بات کا کھوج لگا تے ہیں کہ اس شہر میں کوئی تاریخی یا د گار ہے یا نہیں ؟ اس شہر میں کوئی تاریخی ورثہ ہے یا نہیں‘ اگر ہے تو اب تک یو نیسکو ( UNESCO) نے اس کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے یا نہیں ‘سیا حوں کے ان سوالات کا مثبت جواب دینے کے لئے صو بائی حکومت نے پشاور کے تاریخی مقا م گور گٹھڑی ( گور کھتری ) کو عالمی ورثہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ عنقریب تمام لوا زمات پورے کر کے یو نیسکو کے ذریعے گورگٹھڑی کو عالمی ورثہ قرار دلوا کر ورلڈ ہیری ٹیج کی فہر ست میں جگہ دی جا ئے گی اس حوالے سے جو خبر اخبارات میںشائع ہوئی ہے وہ بیحد حو صلہ افزا ہے خبر سے معلوم ہو تا ہے کہ صو بائی حکومت نے اس سلسلے میں اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہے اور یو نیسکو کی گائیڈ لا ئن کے مطا بق پشاور کا کیس تیا ر کیا گیا ہے ‘یو نیسکو ایک سائنسی ، تکنیکی اور فنی تنظیم ہے اس تنظیم کے پا س جو تجویز جا تی ہے اس کی سائنسی تحقیق ہو تی ہے ‘اس کے بنیا دی لوا زمات کو دیکھا جا تا ہے اور اس تجویز کو تما م پہلوﺅں سے پرکھنے کے بعد اس پر کوئی فیصلہ کیا جا تا ہے ‘اخبارات میں جو خبر شائع ہو ئی ہے وہ ایک واقعے کی خبر ہے ‘مشیر سیا حت زاہد چن زیب نے گور گٹھڑی کا دورہ کیا ، ڈائریکٹر آرکیا لو جی ڈاکٹر عبد الصمد خان اور منیجر ما ر کیٹنگ میڈم حسینہ نے مشیر سیا حت کو بریفنگ دیتے ہوئے منصو بے کی خا ص خا ص باتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور تاریخی عما رت کی 2ہزار سالہ تاریخ کا جا ئزہ پیش کیا تیسری صدی عیسوی میں جب پشاور کا تعمیر شدہ علا قہ بہت محدود تھا یہ چو کور قلعہ شہر کے سب سے اونچے ٹیلے پر بنا یا گیا تھا اس ٹیلے پر بدھ مت دور کے مشہور را جا کنشکا کی یا د گار قائم تھی اس منا سبت سے اس کو ” گور کھتری “ کہا جا تا تھا جو بعد میں بگڑ کر گور گٹھڑی بن گیا اس تاریخی عما رت کی لمبائی اور چوڑائی دونوں 160فٹ ہیں‘ قلعہ نما عمارت ایک چار دیواری کے اندر واقع ہے یہ قلعہ یونا نی ، سفید ہُن اور سا سانی حملہ آوروں نے تعمیر کیا تھا ‘ان کے بعد کشان خاندان کے قبضے میں رہا ، پھر سیتھی ، پارتھی ، کدارہ ، ہند و شاہی ، غز نوی ، سوری، مُغل ، درانی ، سکھ اور انگریزوں کی عملداری میں رہا ، انگریزوں کی فائر بریگیڈ اورا یمبو لینس گاڑیاں اب بھی نوا درات کے طور پر قلعے میں محفوظ ہیں‘ سکھوں کے عہد میں اطالوی جر نیل ابو طبیلہ (Avitable) نے اس قلعے کو اپنا دفتر یا گور نر ہاﺅس بنا یا وہ منتظم بھی بلا کا تھا اور ظا لم بھی حد سے زیا دہ تھا‘ معمو لی جر م پر لو گوں کو پھا نسی دیتا تھا ، اس عما رت میں مغل دور میں مسجد ، اس دور کے مہمان سرائے اور میٹھے پا نی کے کنوئیں بھی تعمیر کئے گئے ، بر طانوی عہد میں یہاں انتظا می آفیسروں اور پٹوا ریوں کے دفا تر ہوا کر تے تھے اس وجہ سے شہر میں اب بھی اس کو تحصیل گور گٹھڑی کا نا م دیا جا تا ہے ، پشاور کے شہری اس تاریخی عما رت کو شہر کے اندر گند ھا را تہذیب کی یا د گار کے طور پر اہمیت دیتے ہیں اور کسی بھی قدیمی عما رت سے زیا دہ اس کے ساتھ جذ باتی وابستگی رکھتے ہیں مختلف ادوار میں شہریوں نے اس عما رت کی حفاظت ، اس کی تزئین و آرائش کے لئے منصو بے منظور کرائے مگر عما رت کو سیا حت کا مر کز بنا نے میں کامیا بی نہیں ہوئی ، گندھا را ہند کو بورڈ اور گندھا را ہند کو اکیڈیمی نے اس پر دستا ویزی فلم بھی بنا ئی ہے ‘علی اویس خیال نے شہر کی فصیل اور دیگر تاریخی عما رات کے ساتھ ساتھ گورگٹھڑی کے قلعے پر بھی تحقیقی کام کیا ہے ، محکمہ ما ل کے اہلکار ہما یون خان نے تحصیل کے نا م سے مو سوم اس قلعے کا سرا پا نہا یت جان فشانی سے لکھا ہے ، گوپال داس ، حا فظ رحمت خان اور دیگر مو رخین نے اس پر قلم اٹھا یا ہے‘ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اور ڈاکٹر سید امجد حسین کی تحریر وں میںبھی اس تاریخی عما رت کا ذکر ملتا ہے ، گور گٹھڑی کی تاریخی عما رت کو عالمی ورثہ قرار دینے سے پشاور کو پوری دنیا کے سیا حتی مقا مات میں جگہ ملے گی اور یہ مو جو دہ حکومت کا بڑا کار نا مہ ہو گا۔