سیز فائر کی ضرورت 

سیز فائر سے مراد غزہ، رفع اور فلسطین میں سیز فائر نہیں اپنے صو بہ خیبر پختونخوا میں دو بڑے گھروں سے ایک دوسرے پر ہونے والی ”گو لہ باری“ کا خا تمہ ہے اس بات پر پا رلیمانی سیا ست کے طا لب علموں سے لیکر بڑے سکا لر وں تک سب کا اتفاق ہے کہ ہمارے صو بے کی پا رلیمانی روایات میں تہذیب، شائستگی اور شرافت کی نما یاں مثا لیں پائی جا تی ہیں، دوسرے صو بوں کی طرح ہڑ بونگ اور ہلہ گلہ یا شور شرابہ ہماری روایات کے خلاف ہے، پنجاب میں گور نر اور وزیر اعلیٰ کے با ہمی اختلافات کی وجہ سے ما ضی میں بہت نا خو شگوار واقعات دیکھنے میں آئے ہیں بلو چستان سندھ اور کشمیر میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ ہیں خیبر پختونخوا کے سیا ستدانوں نے کبھی ما ضی کی اچھی روا یات سے انحراف نہیں کیا مارچ 1972ء میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت علمائے اسلا م نے صوبے میں مخلوط حکومت بنا ئی، فروری 1973ء میں مر کزی حکومت نے بلوچستان میں دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت کو ختم کر کے گورنر راج لگا یا تو خیبر پختونخوا کے گورنر ارباب سکندر خان خلیل اور وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے 15فروری 1973ء کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا، اپنی حکومت رضا کارانہ طور پر ختم کی اور مر کزی حکومت کو اقلیتی جما عتوں کی نئی حکومت بنا نے کا موقع دیا حا لانکہ محاذ آرائی کا نا در موقع تھا اور محاذ آرائی کی گنجا ئش بھی مو جود تھی مگر اس وقت کوئی محاذ آرائی نہیں ہوئی کیونکہ یہ صوبے کے عوام کے مفاد میں نہیں تھی اور صوبے کی پا رلیمانی روایات کے خلاف تھی اس بات سے صوبے کا ہر فرد واقف ہے کہ با ہمی اختلاف اور محاذ آرائی کا نتیجہ ہمیشہ تبا ہی اور بر بادی کی صورت میں سامنے آتا ہے جبکہ افہام و تفہیم اور خیر سگا لی کا نتیجہ ترقی، خوشحا لی اور استحکام کی شکل میں نمو دار ہوتا ہے، ہمارا صو بہ 1979ء سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے، بد امنی کی صورت میں صوبے کی معا شی حالت بر بادی کے دہا نے پر پہنچ گئی ہے ایسے حالات میں ہم سب کو مل کر صو بے میں امن کے ساتھ معا شی ترقی پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے اگر صوبے کے دو بڑوں نے آپس کے اختلا فات کو مزید ہوا دے کر صو بے کو کسی نا گہا نی آفت یا متوقع مداخلت کا شکا ر کر لیا تو عوام کے حقوق متاثر ہونگے جو ہمارے دہشت زدہ اور پسماندہ صو بے کا بہت بڑا نقصان ہو گا عالمی مفکر ین نے سیا ست کو قوت برداشت کا کھیل قرار دیا ہے‘بر طانوی پا رلیمنٹ میں چر چل کا مخا لف اس کو برے الفاظ میں یاد کر تا تھا بعض اوقات گا لیاں بھی بکتا مگر چر چل اس کو جواب نہیں دیتا تھا ایک بار اخبار نویسوں نے سوال کیا کہ آپ کا مخا لف آپ کو برا بھلا کہتا ہے آپ اس کو جواب کیوں نہیں دیتے؟ چر چل نے کہا میری تر بیت بہتر ماحول میں ہوئی ہے شا ید میرے ماں باپ بہتر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔حال ہی میں ہمارے پڑو سی ملک میں انتخا بات ہوئے ہیں، سب نے انتخا بی نتائج کو تسلیم کیا ہے کوئی شور شرابہ نہیں ہوا، کوئی ہنگا مہ نہیں ہوا، گویا ایک جمہوری عمل تھا جو انجام پذیر ہوا جیتنے والا بھی بڑا دل رکھتا ہے ہار نے والا بھی کشادہ دلی اور وسیع القلبی سے اپنی شکست تسلیم کر تا ہے‘ مر کز میں کسی ایک پارٹی کا اقتدار ہوتا ہے صوبے میں دوسری پارٹی حکومت بنا تی ہے لیکن دونوں میں محاذ آرائی نہیں ہو تی کیونکہ محاذ آرائی سے جمہوریت کے نا م پر دھبہ آتا ہے، ماضی میں پنجا ب کے اندر محاذ آرائی کے کئی ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں سیا ستدانوں نے جمہوری اقدار، پارلیمانی روایات اور صوبے کی تہذیب و ثقا فت کی پا سداری کر تے ہوئے شا ئستگی کا مظا ہرہ کیا اور ثا بت کیا کہ ہم لو گ جمہوریت کو بہتر سمجھتے ہیں‘ سیا سی ذہن اور سیا سی سوچ رکھتے ہیں‘ ہمارا کلچر دوسروں سے بہتر ہے اب بھی اسی جذبے کو پروان چڑھا نے کی ضرورت ہے اگر وزیر اعلیٰ کسی ایک پارٹی سے آیا اور گورنر دوسری پارٹی سے آیا تو کیا ہوا؟ دونوں کو صوبے کا مفاد عزیز ہے دونوں جمہوری سوچ رکھتے ہیں مل جل کر صوبے کی خد مت کرینگے اس لئے سیز فائر وقت کا اہم تقا ضا ہے۔۔