اخلاقی زوال

عیدلاضحی کو بڑی عید یالوئے اختر بھی کہا جاتاہے‘ عیدگذرنے کے تیسرے دن اخبارات آگئے توان کی دوکالمی اورتین کالمی سرخیوں میں گھناؤنے جرائم کی بے شمار خبریں تھیں،شوہرنے بیوی اور بیٹے کوقتل کیا،بیٹے نے ماں اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا‘پولیو ویکسین پلانے والوں پرفائرنگ کاملزم واپس آگیا‘کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں!یہ خبریں ہمارے اخلاقی زوال کی نشانیاں ہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ان خبروں کواخلاقی دیوالیہ پن کااشتہار کہنا بھی بے جا نہ ہوگا۔آج انٹرنیٹ کی مددسے آپ دنیابھر کے اخبارا ت اپنے گھر بیٹھ کرپڑھ سکتے ہیں‘آپ کوجاپان، امریکہ، روس، چین،فرانس یا برطانیہ اورجرمنی کے اخبارات میں ایسی خبریں نہیں ملیں گی جومعاشرے کی بے راہروی اور بداخلاقی کی آئینہ دار یا عکاس ہوں آپ کسی گھناؤنے جرم کی تحقیق وتفتیش میں سر کھپائیں گے توآپ کومزید گھناؤنے جرائم کی نشانیاں ملیں گی‘ مثلاً قاتل غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب تھا‘کیوں تھا؟ اس لئے کہ وہ پہلے ہیروئن پیتاتھا پھر اس نے آئس کا نشہ بھی شروع کیا تھااوراپنے ہوش وحواس کھوبیٹھا تھا،اس نے نشہ کرنا کب سے شروع کیا؟جب سے اس کے چچا نے نشہ کے کاروبار میں اس کو اپنے ساتھ شریک کیا،نشے کاایسا کاروبار اس نے کب شروع کیا؟جب اس کا بہنوئی بڑے عہدے پرفائز ہوکرآیا اور اس کو کھلی چھوٹ مل گئی‘ اس کا بہنوئی بڑے عہدے پرکس طرح فائزہوا؟جب اس کی پارٹی کو حکومت ملی اور کارکنوں کوبڑے عہدے مل گئے الغرض آپ کھوج لگاتے جائینگے توگرہیں کھلتی جائینگی اور اخلاقی زوال کی علامتیں سامنے آتی رہیں گی۔حسب معمول پورے محلے کی ضیافت کی،دعوت میں شریک ہونے والے ایک بزرگ شہری نے قاتل کومشورہ دیا کہ اس جرم سے توبہ کرو وقت بدلتے دیر نہیں لگتی سزائے موت یا پھانسی بھی ہوسکتی ہے،قاتل نے کہا کاکاجی!میں جرم نہیں کرتا لوگوں کی خدمت کرتا ہوں، 5معصوم بچوں کے باپ کو اس نے قتل کیا باہرآیا تو بیوہ اور یتیم لڑکوں کودھمکی دی کہ اب تمہاری خیرنہیں وہ لوگ مفرور ڈھونڈنے لگے مفروروں نے لاکھوں روپے مانگے میں نے ایک لاکھ سے بھی کم معاوضہ لیکرقاتل کوموت کے گھاٹ اتار دیا،اگر میں یہ کام چھوڑ دونگا توبے چارے غریبوں کابدلہ کون لے گا؟اجرتی قاتل چوری چھپے یہ باتیں نہیں کرتا بلکہ مجمع عام میں سب کے سامنے ایسی گفتگو کرتا ہے،جو بزرگ اس کو سمجھاتا ہے وہ نیک شخص ہے معاشرے میں کسی دیانت دار اور اصول پسند آدمی کوپاگل قرار دیاجاتا ہے کیونکہ وہ اپنا ذاتی فائدہ نہیں دیکھتا بلکہ قانون اور اصول کو دیکھتا ہے‘ ایسے شخص کومعاشرہ قبول نہیں کرتا،معاشرہ اخلاقی زوال کاشکار ہوچکا ہے، ہمارے ہاں معاشی زوال اور سیاسی زوال کی باتیں بہت ہوتی ہیں اخلاقی زوال کی بات کوئی نہیں کرتا حالانکہ اصل خرابی اخلاقی زوال میں ہے اگرکسی نیک حکمران نے ملک اور قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا توپورے معاشرے کوتیزاب سے دھونا پڑے گا۔