وطن عزیزپاکستان میں ایک اور ب±ری خبر یہ ہے کہ گذشتہ دوسال کے دوران پولیو کی خطرناک بیماری تیزی سے پھیل چکی ہے‘ ملک کے 7شہروں سمیت45اضلاع سے پولیو وائرس کاٹیسٹ مثبت آنے کی خبریں دی گئی ہیں ۔7شہروں میں پشاور،کوئٹہ،کراچی،حیدر آباد ،بنوں،مردان اور میر پورخاص شامل ہیں‘ 45 اضلاع میں خیبرپختونخوا کے7اضلاع بنوں،لکی مروت،باجوڑ،ٹانک،مردان،جنوبی وزیرستان اورخیبرکا نام آیا ہے۔جہاں دوسرے بدقسمت اضلاع کی طرح پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ۔گذشتہ سالوں کے دوران پولیو کی ویکسین پلانے والی ٹیموں پر15حملے ہوئے ہیں ‘ان حملوں میں 13کارکن شہید ہوئے۔ان میں سرکاری ملازمین بھی تھے اور دیہی رضاکار بھی قربان ہوئے۔پولیو کی ویکسین پلانے والی ٹیموں پر جو حملے ہوتے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو پولیو سے پاک ملک ہونے کا اعزاز حاصل نہ ہو ‘ہمارا پڑوسی ملک بھارت 20سال پہلے پولیو وائرس سے پاک ہونے کا اعزازحاصل کرچکا ہے ‘کسی ملک میں پولیو کا وائرس نہ ملے تو اس کی3سال تک نگرانی کی جاتی ہے‘اس عرصے کے دوران کوئی وائرس نہ ملے توعالمی ادارہ صحت(WHO) کی طرف سے ا±س ملک کو وائرس فری ملک قرار دیا جاتا ہے جو عالمی معیار کے مطابق صحت مند بچوں کا ملک ہونے کی دلیل ہے ‘پولیو کا وائرس کسی ملک میں ڈیرہ جمائے تودشمن سے زیادہ نقصان پہنچاتاہے،جدید دور کی جنگوں میں دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ مقابلے پر آنے والوں کی اکثریت قتل نہ ہو بلکہ زخمی اور دائمی معذور ہو تاکہ ریاست اور معاشرے پربوجھ بننے والوں کی وجہ سے مقابل کو معاشی نقصان پہنچے اور مقابل کبھی اپنے پاو¿ں پرکھڑا نہ ہوسکے۔یہ وہی نکتہ ہے جوظاہری دشمن اور پولیو وائرس کا مشترکہ مقصد ہے اس لئے ہمارے ہاں پولیو ویکسین پلانے والوں پر حملہ کرنے کے لئے ہمارا ظاہری دشمن اپنے سالانہ بجٹ میں خطیر رقم مختص کرتا ہے اس رقم کو خرچ کرکے ہمارے دیہات اورشہروں میں ا±جرتی قاتلوں کاگروپ تیار کرتا ہے اور اس گروپ کے ذریعے والدین کو پولیو ویکسین سے انکار کرنے کی ترغیب دیتا ہے ‘انکار نہ کرنے کی صورت میں ا±جرتی قاتل گھربار اور اولاد پرحملوں کی کھلم کھلا دھمکی دیتے ہیں،یہ ایک شیطانی چکر ہے ‘جوکئی سال سے جاری ہے ‘ایک سرکاری وکیل نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیروئن کی بڑی کھیپ پکڑی گئی‘4 لوگ رنگے ہاتھوں گرفتار ہوئے‘ ایک ہفتے کے اندر3ملزموں کو چھڑالیاگیا‘ یہ واردات،امریکہ ٹیکساس،ایران،سعودی عرب یاچین میں پکڑی جاتی تو ملزموں کو سزائے موت دی جاتی مگرہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘اگر ہم تفتیش کرنے والوں کی مجبوریاں دیکھیں توان پربھی ترس آتا ہے،2001ءمیں پولیس کا نیا آرڈر لاکر تھانہ کو تین حصو ں میں تقسیم کیا گیا،پکڑنے والا تفتیش نہیں کرسکتا اور تفتیش کرنے والا عدالت میں مقدمہ پیش کرنے کا مجاز نہیں،آپریشن کاسٹاف ایف آئی آر کاٹتا ہے ‘ملزم کو پکڑتا ہے،آگے تفتیش کاالگ سٹاف آجاتا ہے اس کی تفتیش مکمل ہوجائے تو محکمہ پولیس کو بے دخل کرکے محکمہ قانون کا سٹاف آجاتا ہے‘ اس لئے دوسال میں پولیو ویکسین کی ٹیموں پرحملوں کے مجرم اور 13پولیو ورکروں کے قاتل قانون کی گرفت سے بچ گئے‘یہی وجہ ہے کہ بے شمار ب±ری خبروں میں پولیو وائرس پھیلنے کی ب±ری خبربھی تواتر کے ساتھ آرہی ہے اس کا علاج قانون پر موثر طور پر عملدرآمد ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی