انگلستان کے حالیہ الیکشن میں لیبر پارٹی نے ہاؤس آف کامنز کی اتنی نشستیں جیت لی ہیں کہ اب وہ بغیر کسی دوسری پارٹی کی حمایت ازخود اپنی حکومت بنا سکتی ہے جمہوریت ہو تو ایسی ہو کہ ہارنے والی پارٹی کا سربراہ جیتنے والی پارٹی کے سربراہ کو بغیر کسی چوں چراں فوراً مبارک باد دے دے اور اپنی شکست تسلیم کر لے اور الیکشن میں شفافیت ایسی ہو کہ تمام لوگ آفرین آفرین کہہ دیں پولیٹیکل سائنس کے طالب علم آج بھی پرانے لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کے لیڈروں ڈسرائلی گلیڈ سٹون چرچل اور ایٹلی کی تقاریر میں ایک دوسرے پر ان کی سیاسی چوٹوں کے مندرجات پڑھ پڑھ کر ان کی فراست پر عش عش کرتے ہیں دریائے ٹیمز لندن کے وسط میں بہتا ہے ایک مرتبہ ڈسرائلی نے گلیڈسٹون پر پھبتی کستے ہوے اپنی تقریر میں کہا اگر گلیڈسٹون
دریائے ٹیمز میں گر جاتا ہے تو یہ بد قسمتی ہوگی اور اگر کوئی اسے پھر دریا سے نکال لیتا ہے تو یہ تباہی ہو گی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے پارلیمانی نمائندے ایک دوسرے پر طنز کرتے وقت بھی ادب اور اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑتے تھے انگلستان واقعی پارلیمانی جمہوریت کی ماں ہے اور وہاں کے سیاست دانوں نے گزشتہ دو سو یا تین سو سالوں میں اتنی اچھی سیاسی روایات قائم
کر لی ہیں کہ ان کی تعریف کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا یہ کریڈٹ لیبر پارٹی کو جاتا ہے کہ اس نے انگلستان کو صحیح معنوں میں ایک سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنا کر وہاں کے بسنے والوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کر دی ہیں اگر کسی ملک کے باسیوں کو مفت تعلیمی اور طبی سہولیات میسر ہوں ان کے روزگار کا مناسب بندو بست ہو ان کی آمدورفت کے واسطے مناسب ٹرانسپورٹ کا سسٹم موجود ہو اور امن عامہ تسلی بخش ہو تو پھر انہیں اور کیا چاہئے خدا لگتی یہ ہے کہ فرنگیوں کی اشرافیہ بڑی دور اندیش ثابت ہوئی ہے جب اس نے اپنے ہمسایہ ملک فرانس میں انقلاب فرانس میں وہاں کے عام آدمیوں کے ہاتھوں وہاں کے
سرمایہ داروں کی درگت بنتی دیکھی تو اس نے سوچا کہ اگر انگلستان میں ارباب اقتدار نے عوام الناس کی بنیادی ضروریات کا خیال نہ کیا تو اس کی اشرافیہ کا بھی انجام فرانس کے سرمایہ داروں سے مختلف نہ ہو گا چناچہ اس نے انگلستان کو سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنایا پاکستان جیسے ملک میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ملک کا وزیر اعظم بن سکے پر یہ انگلستان ہے کہ وہاں فیکٹری کے ٹول میکر کا بیٹا وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے کہ جس کی والدہ نے ہسپتال میں بطور نرس بھی کام کیا ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میں 45 لاکھ ایسے افراد ہیں جو صاحب حیثیت ہیں پر حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لئے ٹیکس کا منصفانہ نظام بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔