قا بل ستائش 

اخباری رپورٹوں کے مطا بق حکومت نے سر کاری اخراجات کو کم کرنے کے لئے 29سرکاری اداروں کی نجکاری کے ساتھ 23غیر فعال محکموں کو ختم کرنے کا اصو لی فیصلہ کر لیا ہے اس کام کے لئے باقاعدہ منصو بہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے جس کے تحت مر حلہ وار طریقے سے قدم اٹھا یا جا ئے گا سردست ہوائی اڈوں کے ساتھ پا کستان انٹر نیشنل ائیر لائنز (PIA)، پا کستان سٹیل ملز، پا کستان ریلوے‘ سپورٹس کمپلکس اور کنونشن سنٹر کی نجا ری ہو گی، اس طرح جن سر کاری اداروں کو بند کرنے کا پرو گرام ہے ان میں انفارمیشن ٹیکنا لو جی (IT)‘ کشمیر افیرز، سیفران، وزارت پیدوار، وزارت تعلیم اور وزارت صحت شامل ہیں‘اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ محکمے وفاق کے پا س رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا‘ اسی طرح  زراعت، خوراک جنگلات اور دیگر محکموں کو بھی ختم کیا جائے گا‘سرکاری اخرا جات میں بچت ہو گی تو باربار آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ذرائع ابلا غ کے ساتھ جڑے ہوئے لو گوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پہلے کنکر نٹ لسٹ کو ختم کر کے اختیار ات صو بوں کو منتقل کرنے کا مطا لبہ باربار دہرایا جا تا تھا، ہر حکومت کنکرنٹ لسٹ کا دفاع کر تی تھی اور اس کو مر کز کی مضبو طی کا ضا من قرار دیتی تھی جبکہ ہر دور میں حزب اختلاف چاہتی تھی کہ آئین سے کنکر نٹ لسٹ کو نکا ل کر اختیارات صو بوں کے حوالے کئے جا ئیں تا کہ ملک کی ہر اکائی اپنے معا ملات اور اپنا نظم و نسق چلا نے میں آزاد اور بااختیار ہو، نیشنل پریس ٹرسٹ کو توڑ نے اور اسمبلی توڑ نے کے صدارتی اختیارات کو واپس لینے کے مطا لبات بھی بہت مقبول تھے اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیار58(2)Bاٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 8اپریل 2010ء کو ختم کردیا گیا اس پر فوری عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنے پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا تھا چنا نچہ وفاقی سطح پر 23 محکموں کو ختم کرنا آئین کے بنیا دی تقا ضوں میں شامل ہے‘ اس لئے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا نا چاہئے اور اس فیصلے کی ستائش ضرور ہو گی‘ تاہم مقطع میں سخن گسترانہ بات آجا تی ہے ہمارے ملک کی مو جود ہ معا شی بد حا لی اور ابتری کے تنا ظر میں ہمارے ہاں وی آئی پی پرو ٹو کول اور سکیورٹی کے اخراجات پر بھی نظر ثا نی کی ضرورت ہے‘ ایک کمیٹی بنا ئی جا ئے جو جنو بی کوریا، جا پان، سنگا پور، فرانس، اٹلی اور جر منی میں وی آئی پی پرو ٹو کول کے اخراجات کا جا ئزہ لے‘ متحدہ عرب امارات‘ برونائی‘ سعودی عرب اور برطانیہ میں بادشاہوں کے پر وٹو کول اور سکیورٹی اخرا جات کا اندازہ لگا کر پا کستان کے ساتھ چار امیر ترین باد شا ہوں کے پرو ٹو کول اور سکیورٹی اخراجا ت کا موازنہ کرے تو یقیناپا کستان جیسے مقروض اور مفلو ک الحا ل ملک کے بادشاہوں کے پرو ٹو کول، شوشا اور سکیورٹی کا خر چہ دنیا کے امیر ترین باد شاہوں سے دس گنا زیا دہ نکلے گا‘یہ اخرا جات کی ایسی مد ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں‘ انگریزی میں اس کو ”نان پرو ڈکٹیو“ یعنی ”غیر مفید“ مد کہا جا تا ہے، ایسی مدات اور بھی ہیں‘بقول شاعر ”بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے“ جہاں تک سرکاری اداروں کی نجکا ری کا معا ملہ ہے اس کی بڑے پیمانے پرمخا لفت ہو رہی ہے اور مخا لفت کی کئی وجو ہات ہیں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جن گروہوں نے مل کر ان سرکاری اداروں کو کنگال کیا ہے وہ ایسے گروہ ہیں کہ اپنی کما ئی ہوئی دولت کا سہارا لیکر نجکاری کے خلاف مہم کیلئے فنڈ فراہم کر رہے ہیں‘ خسا رے میں جانے والے سرکاری ادارے ان گرو ہوں کے لئے دودھ دیتی بھینس کا در جہ رکھتے ہیں ایسی مفید بھینس کو ہاتھ سے جا تے ہوئے دیکھ کر وہ شو ر مچا تے ہیں کہ ”بچاؤ“ میری بھینس کو میں نے اس کے دودھ سے اپنا کاروبار چمکانا ہے۔نجکاری کا عمل اتنا ناگزیر ہے تو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ اس وقت غربت اور مہنگائی اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ نجکاری کے عمل میں متا ثر ہونے والے ملازمین کوریلیف ملے اور انہیں مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔