نظم و نسق کا زوال 

دنیا کے جن مما لک میں کامیاب نظم و نسق چلتا ہے وہاں 50لا کھ سے لے کر ڈیڑھ کروڑ تک کی آبادی والے شہر میں ہر ہفتے ہر مکان، کمرہ یا اپارٹمنٹ کو مقا می انتظا میہ دیکھتی ہے اور ڈیجیٹل ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کر تی ہے کہ اس جگہ کون کرایہ دار یا ما لک ہے کیا وہی رہتا ہے یا اس کا کوئی مہمان بھی ہے؟ بظا ہر یہ چھوٹا سا کا م ہے لیکن امن و امان کے لحاظ سے اس کی بڑی اہمیت ہے اللہ کا شکر ہے کہ وطن عزیز پا کستان ایٹمی طا قت ہے مگر نظم و نسق کے حوالے سے دیکھا جا ئے تو ہمارے ملک کا نظم و نسق پتھر کے زما نے سے بھی پیچھے ہے‘آج پرانے اخبارات کی فائلوں میں اپر چترال اور بٹ گرام میں نظم و نسق کی دو مثا لیں سامنے آئیں جو زوال کی علا متیں ہیں،چترال کی آبادی 5لا کھ جبکہ بٹگرام کی آبادی 4لا کھ ہے دونوں جگہوں پر دو بڑے واقعات ہوئے مگر مقا می انتظا میہ کو کا نوں کان خبر نہیں ہوئی جو لا ئی 2015  ء میں سیلاب آیا، سیلاب نے دریا کا رخ موڑ دیا، دریا کی کٹا ئی (erosiom) کی وجہ سے گندم، مکئی اور چاول کی فصلیں دریا برد ہونا شروع ہوئیں،شہتوت، خو بانی، ناشپا تی، سیب، اخروٹ، انگوراور انار کے با غات دریا کی نذر ہوتے رہے‘شہد کی مکھیوں کے 2000چھتے دریا برد ہوئے‘مقا می انتظا میہ کو اس کی خبر نہیں ہوئی، ہر سال یہ بر بادی ہوتی رہی انتظا میہ بدستور سوتی رہی‘یہاں تک کہ دریا کی کٹا ئی نے سر سبز و شاداب گاؤں کی 3ہزار کنال زمین گرا کر 600فٹ نیچے دریا میں بہا دی‘ 11جون 2021ء کو دریا کی کٹا ئی نے سرکاری سڑک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ چترال شندور روڈ بھی دریا برد ہوا، خیبر پختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان کا زمینی رابطہ منقطع ہوا‘چترال کے دونوں اضلا ع کی 5لا کھ آبادی کی واحد سڑک بند ہو گئی، انتظا میہ کو فو جی حکام  حر کت میں لائے‘ مقا می لو گوں کے گھروں کو گرا کر متبا دل راستہ بنا یا گیا اور اس کے بدلے لو گوں کو زمین اور تعمیرات کی قیمت ادا کر نے کا وعدہ کیا گیا، ایک سال بعد قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا، ایک سال بعد 2022ء میں پھر دریا کی طغیا نی کا مو سم آیا تو سڑک دریا برد ہوئی، پھر مقا می لو گوں سے زمین لے لی گئی، مکا نا ت گرائے گئے‘ پھلدار درخت کا ٹے گئے‘پھر کہا گیا کہ معا وضہ ملے گا، 2023ء میں پھر وہی کچھ ہوا‘اب 2024ء میں پھر وہی بربادی آگئی ہے‘پھر متبادل سڑک کے لئے زمین لینے کی ضرورت پڑ ی ہے‘پھر یقین دہا نی کی جا رہی ہے کہ معا وضے سارے مل جائیں گے۔گذشتہ 9سال میں 9بار مو سم سرما آیا دریا کی سطح نیچے گر گئی‘ بندھ باندھنے کی جگہ خا لی ہوئی لیکن انتظامیہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی اگر نو مبر سے لیکر اپریل تک 6مہینوں میں 50ٹن سریا اور 20ٹن سیمنٹ استعمال کر کے 10فٹ چوڑے، 10فٹ اونچے اور 20فٹ لمبے چار مضبوط بند 3فٹ گہری بنیا دوں کے ساتھ تعمیر کئے جا تے تو 2016ء میں دریا کے کٹاؤ کو روکا جا سکتا تھا مگر اس کے لئے نظم ونسق کا ہونا ضروری تھا، 2021ء میں سڑک کی بندش کے بعد بند باندھنے پر کام کیا جا تا تو 2020ء میں زمین کاکٹاؤ رک جا تا، یہی حال بٹگرام کی وادی آلا ئی میں گذشتہ 10مہینوں سے چئیر لفٹوں کی بند ش اور 900 فٹ گہرائی میں واقع دریا کے دونوں طرف آباد 800گھرانوں کی آبادی کی دریا کے آر پار آمدورفت کا ہے، 22 اگست 2023ء کو ایک چئیر لفٹ کے کیبل میں نقص پیدا ہوا‘ نقص کی وجہ سے چئیر لفٹ پرائمری سکول کے 6بچوں اور 2اسا تذہ کو لیکر 900فٹ اونچا ئی پر لٹک گئی 14گھنٹے گذر نے کے بعد گاؤں کے کاریگر نے کمال مہا رت سے خا لی ڈولی کو اُسی کیبل کے ذریعے چیر لفٹ کے قریب لے جا کر لو گوں کی جا ن بچائی‘ اگر یہ واقعہ چین یا جا پان میں ہوتا تو کاریگر کو پرائیڈ آف پر فارمنس کا سول اعزاز دیا جاتا‘ایک نا در شاہی فرمان جا ری کر کے وادی آلا ئی کے 300چئیر لفٹ بند کر وادی گئیں‘ لو گوں کے دریا پار کرنے کا کوئی متبا دل انتظا م بھی نہیں ہوا، بچے سکول جا نے سے محروم ہیں چئیر لفٹ پر مزدور ی کرنے والے بے روز گار ہیں اور لو گوں کی نقل و حر کت پر پا بندی ہے، انتظا میہ خا موش ہے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔


مینجمنٹ پڑھا نے والی یو نیورسٹیوں اور نظم ونسق کی تر بیت دینے والے اداروں، اکادمیوں اور کا لجوں میں کا میا بی اور نا کا می کی مثا لیں نصا بی ما ڈیو لز کا حصہ ہوتی ہیں اگر سول سروس اکاد می والٹن لا ہور کے زیر تر بیت آفیسروں کو چترال اپر اور بٹگرام کے اضلا ع میں نظم و نسق کی نا کا می پر تحقیق کا کام دیا جا ئے تو زیر تربیت آفیسروں کی معلومات کے لئے نا کا می کی دومثا لیں سامنے آئیں گی، اس وقت وطن عزیز کو جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے ان میں سے 50فیصد مسائل صرف نظم ونسق کی بہتری کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں‘ 6مہینوں کے کام کو 9سالوں تک لٹکا ئے رکھنا اور ایک گھنٹے کے فیصلے کو 10مہینوں تک مو خر کرنا اور کچھ نہیں نظم و نسق کی نا کا می ہے۔