ایک کا لم میں انیسویں صدی کے حریت پسند چھا پہ مار جنگجو محمد عیسیٰ کا ذکر آیا تو پشاور سے واصل خیشگی اور مردان سے منور خان منور نے فرنگی کے خلا ف جان لڑا نے والے شمشیر زن کے حالات زندگی میں دلچسپی دکھا ئی‘ چترال،میمنہ اور دیا مر کے ڈاٹس (Dots) ملانے کی خوا ہش ظا ہر کی جب کسی تحریر یا تقریر سے نئے سوالات جنم لے لیں تو ان سوالات پر غور کرنا پڑ تا ہے‘ محمد عیسیٰ کی سامراج دشمنی اور فرنگی کے خلاف طویل مزا حمت اس وقت کی بات ہے جب ذرائع آمدو رفت نہیں تھے، آتشیں اسلحہ نہیں آیا تھا‘ذرائع ابلاغ بھی نہیں تھے، شجا عت اور بہا دری ان کو ورثے میں ملی تھی‘ان کا باپ حر مت شاہ اجنو تور کہو میں بائیکے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے‘خود روشن علی خان اور محمد رفیع کا ہم عصر تھا اپنے وقت کا مشہور شمشیر زن تھا‘ اس نے شاہ افضل اور امان الملک کے دور حکومت میں ریا ست چترال کی طرف سے گلگت اور باشگل کی جنگوں میں بہادری کے جو ہر دکھائے تھے‘شاہ افضل کے بیٹے شیر افضل کی رضا عت بھی ان کے حصے میں آئی تھی‘ ان کا بیٹا محمد عیسیٰ اپنے رضا عی بھا ئی شیر افضل کے ہمراہ شمشیر زنی کی تر بیت حا صل کرتا رہا جب شیر افضل کو اپنے بھا ئی امان
الملک کی طرف سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے کا بل جا کر امیر شیر علی خان کے ہاں پنا ہ حا صل کی، اس جلا وطنی میں محمد عیسیٰ اور محمد افضل بیگ کے علا وہ ایک اور بہا در جنگجو دانیار بیگ بھی ان کے ہمراہ تھا، یہ 1870ء کا واقعہ ہے جب محمد عیسیٰ کی عمر 30سال تھی، دانیار بیگ عمر میں بڑے تھے لیکن فن حر ب میں محمد عیسیٰ کو اپنا استاد مانتے تھے ریا ست چترال کے دو شہزادوں کی با ہمی مخا لفت نے 1876ء میں نیا رخ اختیار کیا جب امان الملک نے مہاراجہ کشمیر کی وساطت سے ہندو ستان پر قابض فرنگی وائسرائے سے دوستی کا معا ہدہ کر کے ریا ست کے دفاعی امور فرنگی کے حوالے کئے، شیر افضل نے کا بل سے فرنگی کو للکارا، محمد عیسیٰ نے چھا پہ مار جنگ کا میدان گرم کیا، عوام نے آگے بڑھ کر محمد عیسیٰ کا ساتھ دیا، امیر شیر علی خان محمد عیسیٰ کے بڑے مداح تھے‘ قندھار کی جنگی مہم میں میمنہ کے مقام پر جب خو نریز لڑا ئی ہوئی تو محمد عیسیٰ نے شمشیر زنی کے ایسے جو ہر دکھا ئے کہ افغا نستان کے بڑے بڑے سور ما بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے، امیر شیر علی خان نے ان کو بڑے بڑے منا صب اور جا گیر وں کی پیشکش کی لیکن ان کا نصب العین اپنی ریا ست میں فرنگی سرکار کی ممکنہ مدا خلت کا راستہ روکنا تھا اور ہر حا ل میں واپس لوٹنا تھا، رفتہ رفتہ 1895ء میں وہ وقت آیا جب فرنگیوں کے خلا ف دست بدست لڑا ئی کی نو بت آگئی، دست بدست لڑا ئی میں ریشن کے مقام پر محمد عیسیٰ نے دو فرنگی آفیسروں کو پکڑ کر قیدی بنا لیا اور اپنے اتحا دی عمرا خان کے پا س جندول روانہ کیا، لیفٹیننٹ فولر اور لیفٹیننٹ ایڈ ورڈیز اپریل کے آخر تک قید میں رہے‘ معا ہدہ امن کی صورت میں ان کو رہائی مل گئی‘ فولر کی ڈائری کلکتہ سے 1902ء میں شائع ہوئی جس میں اس واقعے کی تفصیل مو جود ہے، لیفٹیننٹ بے نن نے اپریل 1895ء میں کرنل کیلی کے دستے کے ساتھ گلگت سے چترال تک مارچ میں حصہ لیا تھا ان کی کتاب With Kelley to Chitralمیں بھی محمد عیسیٰ کا ذکر
جا بجا ملتا ہے‘ معا ہدہ امن کے بعد فرنگی سر کار نے جنگجوؤں کو دوستی کی پیشکش کی‘محمد عیسیٰ نے پیشکش کو ٹھکرا دیا اور آزاد علا قہ یا غستان میں جلا وطنی اختیار کی جہاں 9سال بعد 1906ء میں انہوں نے 66سال کی عمر پا کر وفات پائی‘2023ء میں ان کی نسل کے نو جوان آفیسر محمد خا لد نے دیا مر کے دورے پر جا کر تا نگیر میں ان کے مزار پر حا ضری دی اور مزار کی تصاویر کو فیس بک پر پوسٹ کیا تانگیر سے محمد عیسیٰ کا جو آخری پیغام ملا اس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب فرنگی کو ملک سے نکال دو تو میری قبر پر آکر آواز دو،ان کے بیٹے محمد ایوب نے لمبی عمر پائی اور 1948 ء کی کشمیر مہم میں شر کت کر کے لیفٹیننٹ کا منصب حا صل کیا ان کے پو تے مصطفیٰ کمال نے پشاور شہر کے ہائی سکول نمبر 1سے میٹرک پا س کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی‘دوسرے پوتے ذوالفقار شیر فو جی ملا زمت سے صوبیدار کی حیثیت سے ریٹا ئر ہوئے‘ ان کا پڑ پو تا سید احمد خان ایڈو کیٹ 1985 ء میں صو بائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا‘ صو بائی حکومت میں ارباب جہا نگیر خان خلیل کا ایڈ وائزر مقر رہوا، فلسفی اور قانون دان عصمت عیسیٰ مر حوم بھی ان کا پڑ پوتا تھا۔