انٹر نیٹ اکیسویں صدی کی بڑی نعمت ہے اس نعمت کو اگر اس نا ہنجار دور کا عذاب کہا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا چاقو سیب کو بھی کاٹتا ہے، انگلی اور گلے کو بھی نہیں بخشتا‘ انٹر نیٹ ہمیں مفید معلومات دیتا ہے بدلے میں ہمارا قیمتی وقت برباد کر تا ہے بچوں کو ماں باپ اور بھا ئی بہنوں سے دور کر تا ہے دولت کو تباہ اور وقت کو برباد کر تا ہے، اہل علم اور اہل دانش کہتے ہیں کہ اپنا پیسہ اور اپنا وقت برباد کرنا ہمارا اپنا قصور ہے اس میں بے جان اور بے زبان انٹر نیٹ کا کوئی قصور نہیں جن قوموں نے انٹر نیٹ ایجاد کیا ہے وہ اس کو بوقت ضرورت بقدر ضرورت استعمال کرتے ہیں چوبیس گھنٹوں میں بمشکل ایک گھنٹہ انٹر نیٹ کو دیتے ہیں اس سے زیا دہ وقت نہیں دیتے، جن قوموں نے انٹر نیٹ بنا یا وہ اپنے بچوں کو اس کے قریب جا نے نہیں دیتے نا با لغ اولاد کے لئے اس مشین کو زہر قاتل سمجھتے ہیں ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ انٹر نیٹ آج کے دور کا جام جم ہے، یہ وہ پیا لہ ہے جس میں جمشید کو اس کی پوری مملکت کا حال نظر آتا تھا پیا لہ ٹو ٹ گیا تو حکومت بھی چلی گئی اقتدار بھی نہ رہا غا لب کہتا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا جا م جم سے میرا جا م سفال اچھا ہے انٹر نیٹ کے بے شمار نا م ہیں ورلڈ وائڈ ویب سب سے مشہور نا م ہے اس کے اندر فیس بک ہے، واٹس ایپ ہے، ایکس ہے، میٹا ہے، چیٹ جے پی ٹی ہے، پب جی ہے، ڈارک ویب ہے، ڈیپ ویب ہے، مصنو عی ذہا نت کا پورا جہاں آباد ہے یو ٹیو ب کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے، ٹک ٹاک کی الگ دنیا ہے آپ کس کس کا نا م لیں گے کس کس کو تلاش کریں گے گویا زما نہ عہد میں اس کے ہے محو آرائش، بنیں گے اور تارے اب آسمان کے لئے وطن عزیز پا کستان کے جن دیہات تک وائی فائی تھر ی جی اور فور جی جیسی چیزیں ابھی تک نہیں آئی ہیں ان دیہات کے لو گ بڑے سکون اور آرام کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کو کسی چیز کی پریشا نی نہیں، کوئی ٹینشن نہیں ان
کے بچے باغوں، گلیوں اور جنگلوں میں صحت مند کھیل کھیلتے ہیں، بھو ک لگتی ہے تو گھر آجا تے ہیں، مگر جن شہروں اور قصبوں میں وائی فائی، تھری جی، فور جی وغیرہ نا موں سے نئی چیزیں آ گئی ہیں وہاں بچے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک انٹرنیٹ، یو ٹیوب وغیرہ کے ساتھ محو ہو جا تے ہیں ان کو نہ کھیلو ں کا ہو ش رہتا ہے نہ کھانے پینے کی فکر ہوتی ہے نہ وہ ماں باپ کو پہچانتے ہیں نہ وہ بہن بھا ئیوں سے مانوس ہوتے ہیں، گھر کے اندر انجا ن اور نا مانوس مخلوق پل رہی ہو تی ہے، یہ ایسی سہو لت ہے جو جا پا ن، چین، کوریا، بر طا نیہ اور امریکہ میں بچوں کو دستیاب نہیں، خطرنا ک دوائی کی طرح انٹر نیٹ پر لکھا ہوا ملتا ہے ”بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں“ پاکستان میں انٹر نیٹ جب پہلے پہل آیا تو بھا ری بھر کم ڈیسک ٹا پ کمپیو ٹر ہوا کر تے تھے پھر نسبتاً ہلکے لیپ ٹا پ کمپیو ٹر آگئے یہ بھی اچھا دور تھا پھر ایسا ہوا کہ مو بائل کے نا م سے معروف سمارٹ فون پر انٹر نیٹ آگیا مائیں ڈیڑ ھ سال کے دودھ پیتے بچے کو سمارٹ فون پر ٹام اینڈ جیری یا کو کو ملن یا سپائیڈر مین لگا کر دے دیتی ہیں بچہ اس کھلو نے میں کھو جا تا ہے، ماں دوسرے سمارٹ فون پر اپنے مشا غل میں مصروف ہو جا تی ہے گھر کے ڈرائنگ روم میں بھا ئی بہنیں اپنے اپنے سمارٹ فون کے ساتھ انٹر نیٹ میں کھو جاتے ہیں ماں با پ اپنی اولا د سے با ت کرنے کو تر س جا تے ہیں ہمارے دوست شاہ صاحب نے بچوں، پو توں اور نوا سوں کو ”انٹر نیٹ ما فیا“ کا نا م دیا ہے ہم نے کہا ما فیا کا لفظ بہت سخت لفظ ہے، تھوڑی سی نر می دکھا ؤ، شاہ جی کہنے لگے، بھئی نر می کیسے دکھاؤں؟ یہ بھی ڈرگ ما فیا، کمیشن ما فیا، ڈالر ما فیا اور ٹمبر ما فیا کی طرح ہماری سوسائٹی کا خون چوس رہا ہے ہماری اولاد کو ہم سے بیگا نہ کر رہا ہے، ہم نے کہا یہ عالمی مسئلہ ہے اس کا کوئی عالمی حل سامنے آئیگا، شاہ جی بولے بھئی پڑھے لکھے لو گوں کو یہ مسئلہ درپیش نہیں، ترقی یا فتہ قوموں کے لئے یہ مسئلہ ہی نہیں، یہ صرف ان پڑھ، جا ہل، گنوار اور اجڈ لو گوں کا پیدا کر دہ مسئلہ ہے اور ہم جیسے پسما ندہ قوموں کا مسئلہ ہے
پا تے نہیں جب راہ چڑھ جا تے ہیں نا لے
رکتی ہے میری طبع تو ہو تی ہے رواں اور