یر قان کی یلغار 

نئی خبر اخبارات میں آگئی ہے کہ پا کستان کو یر قان کی بیماری کے اعداد و شمار میں دنیا کا اولین ملک قرار دیا گیا ہے‘ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن (WHO) نے جو تازہ ترین رپورٹ جا ری کی ہے اس میں بتا یا گیا ہے کہ پا کستان میں یر قان کے بیماروں کی تعداد ایک کروڑ 20لا کھ ہو گئی‘ ہر سال اس تعداد میں ڈیڑھ لا کھ مریضوں کا اضا فہ ہو تا ہے‘ تشویشنا ک بات یہ ہے کہ پا کستان میں یر قان سے بچاؤ کی احتیا طی تدا بیر کا فقدان ہے اور یر قان کی ویکسین بھی دستیاب نہیں ہو تی‘اس سے پہلے پو لیو، امراض قلب، امراض گردہ، امراض مثا نہ اور امراض معدہ کے حوالے سے پا کستان کی عالمی رینکنگ کو خرا ب قرار دیا جا تا ہے‘اب یر قان کے حوالے سے تشویش نا ک خبر آگئی رب جا نے آگے جا کر مزید کتنے امراض کے حوالے سے پا کستان کی رینکنگ عام معیار سے نیچے گر جا نے کی خبریں آئیں گی! یر قان جگر کی بیماری ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں ان میں سے بعض قسموں کو خطرنا ک قرار دیا جا تا ہے، ہیپا ٹائٹس سی ان میں شا مل ہے اردو میں اس کو کا لا یر قان کہا جا تا ہے یہ ان بیماریوں میں سے ایک ہے جو آلو دہ پا نی پینے سے پھیلتی ہیں‘ اس کے جر اثیم انسا نی فضلے میں بھی پرورش پا تے ہیں، ہسپتالوں میں آلو دہ اور استعمال شدہ سرنج کے استعمال سے بھی ایک انسان سے دوسرے انسان کے جسم میں منتقل ہو تے ہیں‘عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہسپتال کا عملہ اس بیماری سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے، بیماری کی ابتدائی علا مات مثلا ً آنکھوں کی زردی، پیشاب کی زردی اور بھو ک کا مٹ جا نا‘اکثر ظا ہر نہیں ہو تے، صرف ٹیسٹ کرنے سے ان علا مات کا پتہ لگتا ہے، رفتہ رفتہ بخار اور بدن کی سستی ظا ہر ہو کر مریض کو بستر سے لگا دیتی ہیں، جگر سکڑ تا ہے‘ بدن میں گلو کو ز کی مقدار کم ہو تی ہے‘ پیٹ میں پا نی جمع ہو جا تا ہے، خون کی الٹیاں آنے لگتی ہیں اور مریض پر غشی کے دورے آنے لگتے ہیں‘ اس مر حلے میں یہ بیماری جا ن لیوا صورت اختیار کر لیتی ہے‘بیماری کے پھیلنے کی شرح بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا نظام معا لجہ درست کا م نہیں کر رہا‘ عوام کے اندر حفظا ن صحت کا شعور نہیں ہے‘پا لیسی سازوں کو لمبے عرصے کے لئے غیر متعلقہ اور غیر مفید، غیر ضروری کا موں میں لگا یا گیا ہے‘مثلا ً برٹش پا رلیمنٹ اور امریکی کا نگریس میں حفظان صحت کے اقدامات کی پا لیسی پر کئی دنوں تک بحث ہوتی ہے‘پھر معاملہ قائمہ کمیٹی میں جا تا ہے‘قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو پارلیمنٹ منظور کر تی ہے منظوری کے بعد قانون بن جا تا ہے اور متعلقہ اداروں کے سر کاری حکام اس پر عملدرآمد کر کے پا رلیمنٹ کو رپورٹ کر تے ہیں‘ہمارے ہاں ایسی قانون سازی ہم نے کبھی نہیں دیکھی‘کبھی نہیں سنی، ہم نے پارلیمنٹ میں عوامی مفاد پر بحث ومبا حثہ کبھی نہیں دیکھا، ہمارے ہاں حفظان صحت یا تعلیم کی اہمیت پر قائمہ کمیٹی کبھی نہیں بیٹھی یہاں غیر متعلقہ امور پر گفت و شنید ہوتی ہے 25کروڑ کی آبادی میں 200 (دوسو) خاندانوں کے کاروبار اور مفا دات پر بحث ہو تی ہے جس میں قانونی نکا ت کی جگہ ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے پر لعن طعن کر تے رہتے ہیں  76 سالوں میں 61سال پارلیمنٹ کا وجود قائم رہا‘پائیدار ترقی کے لئے 14اہداف (SDGs) اقوام متحدہ نے 25سال پہلے مقرر کئے تھے ان میں شہریوں کو پینے کا صاف پا نی فراہم کرنیکا ہدف (ٹارگٹ) بھی دیا گیا تھا اس کیلئے 10سال دیئے گئے تھے اور ممبر ملکوں کو 2010ء تک ان اہداف کو حا صل کرنے کا پا بند بنا یا گیا تھا ہمارے پڑوسی مما لک نے اہداف حا صل کئے ہمارے ہاں 23سال گذر نے کے باؤ جود بھی کوئی ایک ہدف حا صل نہیں ہوا‘پینے کا صاف پا نی اب بھی ایک خواب‘ سراب‘ آرزو اور تمنا کی طرح ہمارے ہاتھ ہے‘ یو نیسف کی حا لیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پا کستان میں شہر ی اور دیہی آبادی کو جو پا نی فراہم کیا جا تا ہے وہ 80فیصد آلو دہ ہے‘ انسانی صحت کیلئے مضر ہے پا کستان میں 63فیصد بیماریاں آلو دہ پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں‘ یر قان بھی آلو دہ پا نی کی وجہ سے پھیل رہا ہے اور یر قان زدہ ملکوں میں پا کستان کا پہلا نمبر ہے۔