گرمیوں کی طویل تعطیلات کے بعد مجھے پہاڑی مقام کے ایک پرائمری سکول میں جا نے کا اتفاق ہوا سکول میں 215بچے اور 4اسا تذہ ہیں، سکول میں 3کمرے ہیں ایک چھوٹا بر آمدہ ہے، بچوں کے لئے ٹاٹ بچھائے گئے ہیں ایک کمرے میں اردو، انگریزی اور اسلا میات بیک وقت پڑ ھا ئی جا ری ہے، دوسرے کمرے میں تعلیم القرآن، ریا ضی اور معا شرتی علوم بیک وقت پڑھا ئے جا رہے ہیں، تیسرے کمرے میں سائنس، ڈرائینگ اور مطا لعہ سیرت پڑھا نے کا اہتمام ہے بچو ں کے پاس جو بستے ہیں ان کا وزن 4کلو گرام سے 6کلو گرام تک ہے، کسی استاد کے پاس تلفظ درست کرنے اور کا پی چیک کرنے کا وقت نہیں ہے، ہر کلا س روم میں مچھلی منڈی جیسا شور و غل ہے‘کا ن پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی، بچوں کو زور زور سے کتا بوں کے صفحے زبا نی یا د کر ائے جا رہے ہیں‘یہ نظام تعلیم کی بنیا د ہے اور اس بنیاد میں دو بڑی خرا بیاں ہیں ہر کلاس یا ہر مضمون کی تدریس کے لئے الگ کمرہ جما عت دستیاب نہیں، بچوں کو سمجھا نے اور سکھا نے کے بجا ئے زبا نی یا د کرانے کا طریقہ رائج ہے یہ ایسا طریقہ ہے جو تعلیم کا دشمن ہے جیسا کہ ایک کہا نی میں آتا ہے ایک بزرگ نے جنگل میں طوطوں کے جھنڈکو سبق یا د کرایا ”میں شکا ری کے جا ل میں نہیں آؤں گا“ جب طو طوں نے سبق اچھی طرح یا د کیا تو بزرگ دیکھنے لگا کہ اس سبق کا طوطوں پر کیا اثر ہو تا ہے‘بزرگ یہ دیکھ کر حیراں رہ گیا کہ طوطے اپنا یا د کیا ہوا سبق زور زور سے دہرا تے ہوئے آتے تھے ”میں شکا ری کے جا ل میں نہیں آؤں گا“ اور سیدھے شکا ری کے جا ل میں آجا تے تھے، بزرگ نے یہ نتیجہ نکا لا کہ زبا نی یا د کیا ہوا سبق کسی کام کا نہیں ہو تا کار آمد سبق وہ ہوتا ہے جو طا لب علم کو سمجھا یا جا ئے‘انہی دنوں یور پی ملک اٹلی کے دارا لحکومت روم (Rome) کے پرائمری سکول میں پڑھنے والے پا نچویں جما عت کے طا لب علم کے ساتھ تبا دلہ خیال کا سنہرا موقع ملا، تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی روم کے سر کاری سکول میں داخلہ مشکل سے ملتا ہے‘ ان کو پبلک سکول کہا جا تا ہے، جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ آسانی سے مل جا تا ہے‘ ان کو صرف سکول کہتے ہیں ان کے نا موں کے ساتھ پرائیویٹ کا سابقہ نہیں لگا تے، نظا م تعلیم دونوں میں یکسان ہے‘فرق یہ ہے کہ سرکاری سکول یا پبلک سکول میں ذریعہ تعلیم اطالوی زبان ہے، پرائیویٹ سکولوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے‘ ہر جما عت یا مضمون کے لئے الگ کلا س روم ہوتا ہے‘کے جی اور نر سری کے طلبہ کے لئے بھی خوب صورت کر سیاں اور میزیں ہو تی ہیں، فرش اور ٹاٹ کا کوئی تصور نہیں، بستہ اور کتاب کا بھی کوئی تصور نہیں، استاد کے پاس مو ضوع ہوتا ہے جو اُس کو تعلیمی نصاب سے مل جا تا ہے مثلاً عنا صر یا ایلیمنٹس (Elements)کا سبق ہے‘استاد وائٹ بورڈ اور پاور پوائینٹ کے ذریعے عنا صر کا تعارف کرا تا ہے ان کی تعداد بتا تا ہے پھر طلبہ کو اس مو ضو ع پر بولنے کی دعوت دیتا ہے، طلبہ اس مو ضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہیں‘ آخر میں استاد کلا س کو لائبریری سے دو یا تین کتا بوں کے نا م بتا کر ٹاسک دیتا ہے کہ کتاب پڑھو اور تیا ری کر کے ایک ہفتہ بعد اس مو ضوع پر کلا س کو وائٹ بورڈ کی مدد سے لیکچر دے دو‘ پا نچویں جما عت تک آتے آتے ہر طا لب علم اس قابل ہوتا ہے کہ لٹریچر، تاریخ، معا شیا ت، تجارت، فزکس، کیمسٹری، بیا لو جی، ریا ضی اور کمپیوٹر سائنس کے کسی بھی مو ضوع پر لیکچر تیار کر سکے اور کلاس میں لیکچر دے سکے، وہ کتاب کے کسی صفحے کو زبا نی یا د کر نے کے فن سے نا واقف ہیں، ان کو پڑھا یا جا تا ہے کہ نفس مضمون کو سمجھو‘ ذہن نشین کر لو، پھر اپنے الفاظ میں دوسروں کو سمجھا ؤ، تنقید ی نقطہ نظر سے سوچنے کا ہنر پیدا کرو، اور سوال پو چھنے میں مہا رت حا صل کرو، سکول کے اندر جگہ جگہ لکھا ہوا ہے کہ لیکچر دینے یا تقریر کرنے سے کسی کی قابلیت اور لیا قت کا اندازہ نہیں ہوتا‘سوال کرنے سے لیا قت اور قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے،با ت سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ لیکچر یا تقریر کے لئے بند ہ تیار ی کر کے آتا ہے، سوال پو چھنے کے لئے تیار ی کا وقت نہیں ملتا، صرف ذہا نت اور قابلیت والا بند ہ سوال پوچھ سکتا ہے، ذہنی اور علمی استعداد کے ساتھ بچوں کو جسما نی ورزش اور کھیلوں کا با قاعدہ کیلنڈر اور ٹا ئم ٹیبل دیا جاتا ہے۔
ہر کھیل سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو سکول کسی نہ کسی مشہور کلب کے ساتھ رجسٹرڈ کر تا ہے وہ سکول کے اوقات کی طرح کلب کے اوقات کی بھی پا بندی کر تے ہیں‘ اس طرح بچوں کو تاریخی مقا مات کی سیر کرانے کا باقاعدہ شیڈول ہو تا ہے، رومی سکول کے طالب علم کیساتھ گفتگو کر تے ہوئے مجھے افسوس ہوا‘ہمارے ہاں مینگورہ اور سیدو شریف کے کسی طا لب علم نے گل کدہ کا عجا ئب گھر نہیں دیکھا‘ڈبگری کے سکول کا کوئی طالب علم پشاور کے عجا ئب گھر میں نہیں گیا۔۔۔۔