بنگلہ دیش کے واقعات 

بنگلہ دیش میں کا لج اور یو نیور سٹی کے طلبہ کی تحریک کو عوامی پذیرائی ملی اور عوام نے ایوان اقتدار پر ہلہ بول دیا جس کے نتیجے میں نا پسندیدہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم ہاؤس سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو گئی اور اپنے پڑو سی ملک بھا رت پہنچ گئی‘ اس واقعے نے وسطی ایشیا سے جنو بی ایشیا تک تشویش اور پر یشا نی کی ایک لہر کو جنم دیا‘ اس سے پہلے سری لنکا اور افغا نستان میں ایسے ہی واقعات ہوئے تھے‘جن کے نتیجے میں افغان صدر اشرف غنی فرار ہوئے اور سری لنکا کے صدر گوٹا با یہ راجہ پکسے ملک چھوڑ کر بھا گ گئے،وزیر اعظم مہندہ راجہ پکسے بھی ملک سے فرار ہوئے،افغانستان میں اسلا می مدارس کے طلباء نے امریکی غلا می، انتظا میہ کی نا اہلی، بڑھتی ہوئی بد عنوا نی، ظلم اور نا انصا فی کے خلاف علم بغا وت بلند کیا جو 15اگست 2021ء کو کامیا بی سے ہمکنار ہوا‘ صدر اشرف غنی امریکی طیا رے میں ملک چھوڑ کر بھا گ گئے اور اسلا می مدارس کے طلباء نے ملک میں اپنی حکومت قائم کی، سری لنکا میں عوام نے راجہ پکسے خاندان کی اجا رہ داری، معیشت کی تبا ہی، افراط زر، مہنگا ئی اور عدلیہ پر حکمرا ن خا ندان کے قبضے کے خلاف آوازاٹھا ئی‘ را جہ پکسے خا ندان کی حکومت نے عوام پر گو لیاں چلا کر احتجا ج کو دبا نے کی کو شش کی مگر عوام کی طاقت کے سامنے حکومت کو نا کا می کا منہ دیکھنا پڑا‘مارچ 2022سے نو مبر 2022تک احتجا ج جا ری رہا‘اس میں روز بروز شدت آتی رہی۔جو لا ئی میں صدر گوٹا بایہ راجہ پکسے ملک سے فرار ہوئے‘نومبر میں وزیر اعظم مہندہ راجہ پکسے ملک چھوڑ کر بھا گ گئے کا بینہ نے استعفیٰ دیا اور سری لنکا میں نئے دور کا آغا ز ہوا‘ بنگلہ دیش کے حا لات کی دونوں واقعات سے گہر ی مما ثلت ہے، جس طرح افغا نستان میں اشرف غنی کی حیثیت امریکی کٹھ پتلی جیسی تھی اسی طرح بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حیثیت بھی بھارتی کٹھ پتلی سے مختلف نہیں تھی ”سر آئینہ میرا عکس بے‘ پس آئینہ کوئی اور ہے“ سری لنکا سے اس کی مما ثلت یہ تھی کہ را جہ پکسے خا ندان کی طرح شیخ مجیب کے خا ندان نے ملکی سیا ست پر اپنی اجا رہ داری قائم کر رکھی تھی‘عدالتوں کے اختیارات سلب کئے گئے تھے، عدل و انصاف کے تما م دروازوں کو بند کیا گیا تھا‘جب عدل و انصاف کی اُمید ختم ہو جا تی ہے تو ایسے واقعات رونما ہو تے ہیں جیسے نو مبر 2023ء میں جار جیا میں بڑے پیما نے کا انقلاب آیا اس طرح جنوری 2011ء میں تیو نس کے عوام نے ایوان اقتدار پر قبضہ کر کے زین العا بدین بن علی کی طویل حکمرا نی کا خا تمہ کر دیا‘حا لا نکہ ان کا منصو بہ تھا کہ زندگی بھر میری حکومت ہو گی‘ مرنے کے بعد میری اولا د کی حکمرا نی ہو گی‘عوام کے غیض و غضب نے ان کا غرور اور تکبر خا ک میں ملا دیا‘ان واقعات میں سوچنے اور غور و فکر کرنے والوں کیلئے سبق ہے لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتا‘ جار جیا‘ تیو نس‘ افغانستان‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ایک بشری‘ سما جی اور معا شر تی مما ثلت ہے‘یہ پا نچوں مما لک ایسے ہیں جہاں سو سائٹی میں مذہبی، لسا نی اور نسلی دشمنی کو جگہ نہیں دی گئی‘تھوڑے بہت اختلا فات ضرورہیں مگر وقت آنے پر اُن کو بھلا دیا جا تا ہے، سامنے بڑا مقصد یا عظیم نصب العین ہو تو چھوٹے مو ٹے اختلا فات کو اپنی راہ میں رکا وٹ بننے نہیں دیتے، ان میں قومی جذبہ توا نا اور مضبوط ہوتا ہے‘مذہبی اور نسلی یا لسا نی اختلافات اُس پر حا وی نہیں ہوتے‘نہج البلا غہ کی ایک سطر کا تر جمہ اردو اور انگریزی میں بار بار دہرایا جا تا ہے ”کفر کے ساتھ حکومت قائم رہ سکتی ہے‘ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتی“ بنگلہ دیش کے انقلا ب نے ایک بار پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ کے اس قول کو سچا ثا بت کیا‘ دو دن پہلے تک حسینہ واجد اپنے آپ کو آہنی خا تون ثا بت کر نے پر تلی ہوئی تھی‘ جب انقلاب نے دروازے پر دستک دی تو حسینہ واجد کیساتھ اُس کے باپ کی با قیات کو بھی ملیا میٹ کیا گیا، عوام کے ہجو م نے شیخ مجیب کے یا د گاری عجا ئب گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، شیخ مجیب کے مجسمے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کوڑے میں پھینک دیا، یہ ایسا ہی دن تھا جس کے بارے میں فیض نے پیشگو ئی کی ”جب تا ج اچھا لے جائینگے، جب تخت گرائے جا ئینگے اور راج کرے گی خلق خدا جو تم بھی ہو، جو میں بھی ہو ں“ بنگلہ دیش کے معا شرتی ڈھا نچے کی بڑی خو بی یہ ہے کہ وہاں جا گیر داروں کا غلبہ نہیں،تعلیم یا فتہ لو گوں کا غلبہ ہے ورکنگ کلا س کی بڑی عزت ہے اور انقلا ب ہر جگہ ورکنگ کلا س کے ذریعے آتا ہے۔