ذوق پرواز علمی اسفار کی خو ب صورت روداد ہے مصنف نے جر میات کی فلا سفی اور جرائم پر کنٹرول کی حکمت عملی کے مو ضوع پر دنیا بھر میں ہونے والی جن علمی اور تحقیقی کانفرنسوں میں شرکت کی ان کانفرنسوں کی روداد عالمی شہر ت یافتہ شخصیات سے ملا قاتوں اور ان مما لک کی سیرو سیا حت کو ادبی اسلوب میں سفر نا موں کی صورت میں تحریر کیا ہے‘ 2023ء میں مصنف نے تمام سفر نا موں کا جا مع اور ضخیم مجمو عہ شائع کیا ہے جو ساڑھے پا نچ سو صفحا ت پر مشتمل ہے‘ ان سفر نا موں میں عجا ئبات بھی ہیں‘ تضا دات کا لطف بھی ملتا ہے‘چین اور امریکہ کے ہر سفر میں عجائبات سے پا لا پڑ تا ہے‘ مصنف نے 2005ء سے 2019ء تک مختلف مر حلوں میں مختلف مقامات پر سفر نا مے لکھے‘اس لئے اسلو ب میں رنگا رنگی اور بو العجبی ہے‘ایسا نہیں لگتا کہ ایک ہی شخص نے سفر کیا اور اسی نے اکیلے سب کچھ لکھا ہے‘ آثار مکہ و مدینہ میں قاری کو مورخ اور محقق سے پا لا پڑ تا ہے جبکہ مائیکل اینجلو اور ڈاو نچی کے وطن میں مصنف ایک کھلنڈرا سیا ح نظر آتا ہے‘اس نے خود اعتراف کیا ہے کہ وقت کی کمی کے پیش نظر مسو لینی کے وطن سے انصاف نہ کر سکا‘دو باتیں بہت نما یاں ہیں‘ مصنف جہاں تر قی اور خوشحا لی دیکھتا ہے وہاں اپنے پیا رے وطن کی پسماندہ گی اور بد حا لی اس کو یا د آتی ہے اور وطن کی نا اہل قیا دت کے لتے لیتا ہے‘گویا دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے‘دوسری بات بڑے مزے کی ہے مصنف پر و فیسر اشرف بخاری کا دوست، مداح اور مولانا رومی کا مرید ہے‘ علا مہ اقبال کا عقیدت مند ہے‘ رومی کے فارسی اور اقبال کے فار سی یا اردو اشعار سے اپنے نثر پارے کو مزین کر تا ہے‘فارسی اور عربی میں دسترس کی وجہ سے مولانا ابو الکلا م آزاد کی طرح مر صع اور مسجع نثر پر بھی طبع آزما ئی کر تا ہوا دکھا ئی دیتا ہے مگر مشفق خوا جہ سے بھی متا ثر نظر آتا ہے‘ جگہ جگہ خا مہ بگوش والی پھلجڑیاں پڑھنے کو ملتی ہیں‘نوائے مسا فر کے زیر عنوان کتا ب کے تعارف میں لکھتے ہیں ہندوستان کے را جہ رائے دا بشیلم نے جب باد شاہ ہو شنگ کی وصیت کے مطا بق علم کے مو تی چننے کے لئے سرا ندیب جا نا چا ہا تو ایک وزیر با تدبیر نے کہا کہ سفر کی تکلیف تو دوزخ سے بھی زیا دہ ہوتی ہے‘راجہ دا بشیلم نے بر جستہ جواب دیا مسافر ت کے صبر آزما دریا کو پار کر کے ہی کوئی شخص متمدن اور مہذب ہو سکتا ہے‘ باز کو باد شاہوں کی کلائی پر بیٹھنے کی عزت اس لئے حا صل ہے کہ وہ آشیا نے میں نہیں ٹکتا اور الو کو لو گ حقیر نظر سے اس لئے دیکھتے ہیں کہ وہ ویرانے سے نکلنے کیلئے تیا ر ہی نہیں ہوتا‘ان سفر نا موں میں کیا ہے؟ میں اس سوال کو غلط سمجھتا ہوں‘ درست سوال یہ ہو سکتا ہے کہ ان سفر نا موں میں کیا نہیں؟ اردن میں وادی حضرت مو سیٰ ؑ وادی شعیب‘ یوشع بن نون کا مزار‘ اصحا ب کہف کا غا ر، حضرت شعیبؑ کا مزار مبار ک‘قاہرہ میں علا مہ بدر الدین عینی اور حا فظ ابن حجر عسقلا نی کے مزا رات پر حا ضری کا شرف‘ اردن میں سلطان صلا ح الدین ایو بی کے تاریخی قلعے کی سیر، قطر میں اسلا مک آرٹ میو زیم کا دورہ اور بھی بہت کچھ، پڑھئے سر دھنیے اور آگے بڑھتے جائیے چین کے شہر شنگھائی میں ایک کانفرنس کے دوران تل ابیب سے آنیوالے یہودی مندوب کی تقریر سننے کا سوئے اتفاق ہوا، اسرائیلی مندوب نے ویڈیو کی مدد سے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطینی بچے دہشت گر د ہیں وہ اپنے ساتھ غلیل اور پتھر لیکر پھر تے ہیں راہ چلتے ہم پر پتھر پھینکتے ہیں چونکہ امن قائم رکھنا بحیثیت قانون کے محا فظ ہماری ذمہ داری ہے اسلئے ہم ان بچوں کو دیکھتے ہی گولی ماردیتے ہیں تا کہ دہشت گر دی ختم ہو، سفر اور کانفرنس کی یہ دلگداز روداد بیان کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں کس قدر دکھ کی بات ہے شنگھا ئی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں اسرائیلی مندوب نے جرمیات کے بین الاقوامی ما ہرین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کو شش میں تما م حدود پا ر کر دیں‘ غلیل سے پتھر پھیکنے والوں کو دہشت گرد کہا اور معصوم بچوں کو گولی مار کر خا ک و خون میں نہلا نے والوں کیلئے قانون کے محا فظ کا مغا لطہ آمیز اور گمراہ کن جملہ بولا نا طقہ سر بگر یباں ہے اسے کیا کہئے مصنف ڈاکٹر فصیح الدین اشرف پو لیس سروس آف پا کستان کے سینئر آفیسر ہیں، پا کستان جر نل آف کریمینا لو جی کے با نی ایڈیٹر اور پا کستان سو سائٹی آف کریمینا لو جی کے با نی ہیں۔
ایشین کریمینا لو جی سو سائٹی اور ایشین ایسو سی ایشن آف پو لیس سٹڈیز کے ممبر ہیں اس حیثیت میں انہوں نے علمی کا نفرنسوں میں پا کستان کی نما ئندگی کر تے ہوئے 6بر اعظموں کے 26اہم مما لک کے متعدد دورے کئے‘ لکھنے پہ آتے ہیں تو بے تحا شا لکھتے ہیں گویا Prolificرائٹر کا تا ج ان کے سر پر سجتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔