نتیجہ آگیا!۔۔۔

پشاور میں نتیجو ں کا سیزن شروع ہوا ہے‘ پشاور بورڈ کے بعد پشاور کے اخبارات میں صوبے کے 8 بورڈ وں کے نتیجے ایک ایک ہو کر آ رہے ہیں مگر یہ صرف میٹرک کے نتیجے ہیں ایک شرمندگی کے بعد مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے میٹرک کانام سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ (SSC) اور بارہویں جما عت کا نا م ہائیر سیکنڈری سکول سرٹیفیکٹ (HSSC) رکھ دیا گیا ہے گذشتہ کئی دہائیوں سے ہمارا تعلیمی نظا م اپنے امتحا نات اور ان کے نتائج کو لیکر ”نا زک موڑ“ سے گذر رہا ہے مگر گذرتا نہیں نا زک موڑ پر پھنس گیا ہے اور ہم خود فریبی کے عذاب میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جو حکومت نتیجہ نکا ل کر دیتی ہے وہی حکومت نتیجہ کو تسلیم نہیں کر تی کسی ڈھنگ کے کا لج یا پیشہ ورانہ تعلیم کے بڑے ادارے میں داخلہ کیلئے 99 فیصد نتیجہ یعنی 1200میں سے 1188نمبر لیکر جائیں تو حکومت کہتی ہے یہ نتیجہ اور یہ سر ٹیفیکیٹ قبول نہیں، تم تین مہینے بعد آکر نیا ا متحان دے دو ہم دیکھیں گے کہ تم کتنے پا نی میں ہو، 3ماہ بعد امتحان دیکر پھر 99فیصد نمبر لیتے ہو تو حکومت حکم دیتی ہے کہ ایک بار پھر امتحا ن ہو گا اور اس حکم کے آتے آتے تعلیمی سال گذر جا تا ہے 99فیصد نمبر لینے والے کا قیمتی سال ضا ئع ہوجاتا ہے‘ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، سسٹم کو ہلکازکام تک نہیں ہوتا، آج جن شہریوں کے بال سفید ہو چکے ہیں وہ اخبارات میں کسی امتحا ن کا نتیجہ دیکھ کر اپنے طالب علمی کے زما نے کو یاد کرتے ہیں کیا زمانہ تھا بورڈ کا امتحا ن ہو تا تھا‘ نتیجہ آجا تا تو سب کو اطمینان ہو تا‘ جس کے ضمنی پر چے آجا تے وہ چپکے سے دوسرا پر چہ دے دیتا جس کے اچھے نمبر آتے وہ خراماں، خرا ماں جا کے کسی ڈھب کے کا لج یا پیشہ ورانہ تعلیم کے سال اول میں داخلہ لے لیتا، اس کے سر ٹیفیکیٹ اور مارکس شیٹ کی عزت ہوا کرتی تھی 850 میں سے  647نمبر کا مطلب ہوتا تھا طالب علم نے اچھے نمبر لے لئے‘76فیصد نمبر سے کام چل جا تا تھا‘بورڈ بھی اس کو مانتا تھا حکومت بھی اس کو تسلیم کرتی تھی‘ 50فیصد نمبر لینے والے ڈاکٹر، انجینئر اور پی ایچ ڈی سکا لر ہوتے تھے‘آگے جا نے کا رجحا ن ہوا کر تا تھا‘ امتحا ن پر امتحان اور پر چے پر پر چہ دینے کا کوئی نرالا دستور نہیں تھا‘  خدا ان کی عمر دراز کرے ہمارے زما نہ طالب علمی کے بزرگ استاد بقید حیات ہیں وہ انٹری ٹیسٹ یا مڈ کیٹ وغیرہ کا نا م سنتے ہیں تو آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور پو چھتے ہیں اگر حکومت امتحان کے نتائج کو تسلیم نہیں کر تی تو امتحا ن کیوں لیتی ہے؟ اپنی ناکامی کا کھل کر اعتراف کرے‘ زمین پر ناک رگڑے اور امتحان لینے کا کام آغا خان یونیورسٹی‘ آکسفورڈ یونیور سٹی یا کیمبرج یونیورسٹی بورڈ کے حوالے کرے‘ملک کے طول و عرض میں ڈیڑھ سو امتحا نی بورڈ ضروری ہیں تو ان کا ہر نتیجہ تسلیم ہو نا چاہئے بفرض محال امتحا نی بورڈ کا کوئی بھی نتیجہ قابل قبول نہیں تو رجسٹریشن، امتحا نی فارم،امتحا نی فیس‘امتحان اور نتیجہ سب کچھ ختم کرے‘اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود کو دھوکا دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر سرٹیفیکیٹ خود حکومت کیلئے‘ تعلیمی اداروں کیلئے امتحا نی بورڈوں کیلئے قابل قبول نہیں تو فضول کی یہ سر دردی ختم کرو‘ ہم اپنے بزرگ استاد کی خد مت میں عرض کر تے ہیں کہ نیا زما نہ آگیا ہے اس دور میں نتیجہ تسلیم نہ کرنا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے‘1988ء سے اب تک 10بار انتخا بات ہوئے‘ ہر الیکشن پر اربوں روپے خرچ ہوئے‘ 1988ء میں 8ارب روپے خرچ ہوئے تھے، اس کا نتیجہ ہمارے بڑوں نے تسلیم نہیں کیا‘2024ء میں 29ارب روپے خرچ ہوئے اس کا نتیجہ بھی بزر گوں نے تسلیم نہیں کیا‘ بزرگ استاد کہتے ہیں‘انتخا بات کو چھوڑ ئیے وہ تو پتلی تما شا ہے کٹھ پتلیوں کا رقص ہے‘ امتحا نات کی بات کیجئے یہ قوم کے مستقبل کا معا ملہ ہے‘نئی نسل کا مسئلہ ہے، آج قوم کا ہر نونہال اور ہر نوجوان پو چھ رہا ہے تم اگر امتحا نی نتیجہ اور سر ٹیفیکیٹ تسلیم نہیں کرتے تو امتحا ن کیو ں لیتے ہو؟ ایسا سرٹیفیکیٹ کیو ں دے رہے ہو خو د اس کو نہیں مانتے کیا یہ کھلا تضا د نہیں؟۔