پا نچ سگے بھا ئی آپس میں لڑ رہے تھے کسی کے ہاتھ میں تلوار، کسی کے پاس خنجر، کسی کے پا س چا قو، کسی کے پاس چھری تھی‘ سامنے گویا خونریزی کا منظر تھا‘اتنے میں با با جی آگئے، انہوں نے سب کے ہاتھوں سے خو نی ہتھیار چھین لئے، تو ایک بھا ئی نے سب کو کہا کل کا دن آنے دو میں خو د کش حملہ کر کے تمہارا خاتمہ کردونگا، با با جی بولے، احمق کہیں کے، ہو ش کے نا خن لو‘خو دکش حملہ آور پہلے خو د اپنا خون کر تا ہے پھر کسی اور کا‘اس گھر میں صرف ایک دن کا واقعہ نہیں تھا ہر روز ایسا ہی ہوتا تھا‘با با جی روز کہتے تھے اک ہنگا مے پہ مو قوف ہے گھر کی رونق نو حہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی‘گاؤں کے لو گ ان کو ”بھا ئی لوگ“ کہتے تھے ان میں سے ہر بھا ئی اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ گاؤں کے لو گ مجھ سے ڈر تے ہیں‘ حا لانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا گاؤں کے لو گ اس دن کے منتظر تھے کہ بھا ئی لو گ آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو جہنم واصل کریں اور ان کا گھر ہم سب آپس میں تقسیم کریں‘رہے نا م اللہ کا، ایک بار ایسا ہوا کہ با با جی کو غصہ آیا اور لڑنے والوں سے پو چھا تم امن سے کیوں نہیں رہتے؟ بڑا بھائی بولا، گاؤں والوں پر رغب جما نے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں، با با جی بولے تم بے وقوف ہو‘گاؤں والے کہتے ہیں کہ یہ پا نچوں بھا ئی پا گل ہیں‘گھر میں کھا نے کو دال روٹی نہیں، رات کو روشنی نہیں، دن کو آشتی نہیں یہ پا گل لڑ کر آپ اپنا خا تمہ کرینگے تو ان کے گھر پر ہمارا قبضہ ہو گا‘پا گلوں کا یہی انجام ہو تا ہے۔ پا کستان میں ہر سال 14اگست کو ہم یو م آزادی منا تے ہیں اور اپنی نئی نسل کو بتا تے ہیں کہ 14اگست 1947ء کو ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلا می سے آزادی حا صل کی تھی آج اس واقعے کو 78سال ہو گئے جن بزر گوں نے آزادی حا صل کر نے میں اپنا خون پسینہ لگا یا تھا وہ سب اس دنیا سے رخصت ہو ئے آج ان کی تیسری اور چوتھی نسل اس ملک میں یوم آزادی منا رہی ہے‘اس نسل کو آزادی کی تحریک کا کچھ بھی حا ل معلوم نہیں اس نسل کو کسی بھی ذریعے سے یہ نہیں بتا یا گیا کہ 1947ء میں ہم سب مسلمان تھے، جو غیر مسلم تھے ان کو بھی ہم اپنا بھائی سمجھتے تھے اس لئے ہماری آزادی کے لئے ان لو گوں نے بھی قربا نیاں دیں‘ ہم سب نے مل کر آزادی حا صل کی‘نئی نسل کو یہ بھی نہیں معلوم کہ 78سال پہلے آزادی حا صل کر تے وقت بنگا ل سے سرحد تک 12کروڑ کی آبادی تھی اس آبادی میں سب کے سب پا کستانی تھے‘کوئی پنجا بی، بلو چی،سندھی، سر حدی اور بنگالی نہیں تھا، آزادی کے بعد پا نچوں بھا ئیوں کی لڑا ئیوں میں پا کستانی قومیت گم ہوگئی‘چھوٹی چھوٹی شنا ختیں سامنے آئیں‘چار قومیتوں میں سے مزید پندرہ قومیتیں نکل آئیں‘ یہاں تک کہ جن لو گوں نے 78سال پہلے اپنا گھر بار چھوڑ کر، لکھنو، دہلی، آگرہ اور دوسرے شہروں سے ہجر ت کر کے پا کستان کو آباد کیا تھا ان کی نئی نسل نے اپنے آپ کو ”مہا جر قومیت“ کا نا م دیا‘حقیقت روایا ت میں کھو گئی، یہ قوم خر افات میں کھو گئی‘ پا کستان بنا نے والوں کی تیسری اور چو تھی نسل کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پا کستان اسلا م کے نا م پر وجو د میں آیا تھا‘پا کستان بنا نے کا مقصد یہ تھا کہ نئے ملک میں اسلا می نظا م نافذ ہو گا‘شریعت کا اسلا می قانون آئیگا‘ چنا نچہ نئی نسل قیا م پا کستان کے مقا صد اور نصب العین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جا نتی‘وہ کہتی ہے کہ مسلمان فرقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں ہر فرقہ دوسرے کا دشمن ہے‘ اب معلوم نہیں شریعت کا قانون کس فرقے کی جیب میں ہے؟ آج قوم اٹھہترواں یوم آزادی اس حا ل میں منا رہی ہے کہ قوم کی نئی نسل کو یہ بھی علم نہیں کہ پا کستان چند قانون دانوں نے مل کر حاصل کیا تھا انہوں نے پا کستان بنا نے کے لئے آئینی اور قانونی جنگ لڑ ی تھی‘ ہماری نئی نسل کو اس بارے میں کسی نے نہیں بتا یا، نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ 14اگست 1947ء کو ایک حوالدار نے سیٹی بجائی اور ملک آزاد ہو گیا‘ گورنر جنرل نے کہا ”میرے عزیز ہم وطنو!“ نئی نسل کو آج یہ بتا نا پڑے گا کہ با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اسلام، قانون اور جمہو ریت کے علمبر دار تھے‘آج سگے بھا ئیوں کو ایک بار پھر بتا نا ہے کہ ہو ش کے نا خن لو تمہارا وہی حشر ہو گا جو صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی نظم میں تیتر اور بٹیر کا ہو اتھا
ایک تھا تیتر
ایک تھا بٹیر
لڑ نے میں دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ دوسرے کی دم