ایک جر من مفکر ایف ڈبلیور یفیسن نے حکومت اور عوا م کے درمیان پائی جا نیوالی خلیج کو پُر کرنے کیلئے گاؤں گاؤں جا کر عوام کو منظم کرکے ترقیا تی عمل میں ان کو حصہ دار بنا نے کا تصور پیش کیا چونکہ وہ خود نو جواں تھا فو ج کے ساتھ کام کا تجر بہ رکھتا تھا خو د گاؤں گاؤں جا کر لو گوں سے کہا تمہارے کیا مسائل ہیں‘ لو گوں نے بیسیوں مسائل کی گنتی کر کے دی‘اُس نے کہا تمہارا کیا خیال ہے یہ مسائل کون حل کرے گا‘ لو گوں نے کہا حکومت حل کریگی‘ اُس نے نفی میں سر ہلا یا اور کہا تم خود کیوں حل نہیں کر تے؟ لوگوں نے پو چھا کس طرح؟ اُس نے کہا امدا د باہمی کے ذریعے، لو گوں نے کہا وہ کیا ہو تا ہے اُس نے کہا آپس میں جڑ جاؤ، ایک مسئلہ اٹھا ؤ مل کر پیسے ڈالو‘ مل کر کام کرو‘پھر دوسرا مسئلہ اٹھا ؤ پھر تیسرا پھر اگلا‘ یہ تصور جر منی سے پورے یو رپ میں پھیلا 1848ء اور 1888ء کے درمیانی عرصے میں ہر جگہ عوا م کی اجتما عی طاقت سے عوام کے مسائل حل کر نے کی کئی کا میا ب مثا لیں سامنے آئیں آج بھی ریفیسین کے نا م سے امداد با ہمی کے بینک اور دوسرے ادارے یو رپ میں کام کر تے ہیں‘اس تصور کو اختر حمید خان، شعیب سلطان خان اور مسعود الملک نے پا کستان میں مقبول بنا یا‘ کامیاب ما ڈل کے طور پر جنو بی ایشیا میں پھیلا یا ”وعدوں کی پا سداری“ (Promises to keep)کے نا م سے آسٹریلوی مصنف نول کزینس (Noel Cossins) کی نئی کتاب متحرک سماج یا سما جی تحریک کو تصور سے عمل تک مثالوں کے ذریعے بیان کر تی ہے اور دکھا تی ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان حا ئل کسی بھی خلیج کو پاٹنے کیلئے سول سو سائٹی کا یہ ماڈل بیحد کا میابی سے آگے بڑ ھے گا اسکے تین اجزاء ہیں شعور اور آگہی‘اتحا د اور تنظیم‘ اپنی مدد آپ اور امداد با ہمی‘ ان اجزا کو یکجا کرنے سے عوام اور حکومت کے درمیان ایک پل قائم ہو تا ہے غر بت کا علا ج ہوتا ہے‘ پسماندگی اور بے روزگاری کا مستقل مداوا ہوتا ہے عوام کو اپنی حکومت سے کوئی بڑی شکایت نہیں ہو تی‘1980ء میں کرا چی کے مضا فاتی علاقہ اور نگی سے کام کا آغا ز کر تے وقت ڈاکٹر اختر حمید خان نے لو گوں سے کہا تھا ”غر بت کا علاج یہاں تمہارے قدموں کے نیچے ہے“ یہی پیغام لیکر شعیب سلطان خان نے1982ء میں گلگت بلتستان اور چترال میں متحر ک سما ج، امداد باہمی اور دیہی تر قی کیلئے با مقصد شراکت داری (Participatory approach) کا تصور پیش کیا‘ مسعود الملک نے سر حد رورل سپورٹ پرو گرام کے ذریعے یہی پیغام دیا‘ اب یہ ایک تر قیا تی فلا سفی بن چکی ہے مصنف نول کزینس نے اس کو فلسفہ اور تاریخ کے اسلوب میں اکتادینے والے صفحات میں نہیں لکھا انہوں نے سوچا مو ضوع وسیع اور گھمبیر ہے‘قاری پر اکتا ہٹ طاری ہو سکتی ہے اسلئے انہوں نے جیف ووڈ کا طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ مکا لماتی اسلو ب اختیار کیا، انگریزی کے بھار ی بھر کم الفاظ، اصطلاحا ت، ترا کیب اور ان کے مخفف حروف کو آسان کر کے پیش کیا‘ شعیب سلطان خان اور مسعود الملک سے لیکر شاندا نہ خان‘ معراج ہما یوں‘ منور نا دیہ‘ خلیل‘ نا در گل‘ سٹیو جونز‘ راشد‘خالد‘ رومی حیات‘ طلعت‘ آغا جواد اور سینکڑوں دیگر کر داروں کیساتھ اُٹھتے بیٹھتے‘چلتے پھر تے‘یا کھا تے پیتے گفتگو کی‘ ہر گفتگو کو حسن نظا می کی طرح محا کا تی پس منظر کیساتھ آسان الفاظ میں دلنشین کر کے لکھا‘ پڑھتے ہوئے لُطف آتا ہے‘ ہر اقتباس اور ہر جملہ الگ مزہ دیتا ہے‘گویا ایک دلچسپ نا ول کی طرح کتاب اپنے آپ کو پڑھواتی ہے اور قاری کی انگلی پکڑ کر بتا تی ہے کہ شعیب سلطان خان نے کس طرح آغا خان رورل سپورٹ پر و گرام شروع کیا کس طرح اس ما ڈل کو بھا رت اور سری لنکا میں بھی مقبول بنا یا‘ کس طرح جا پا ن کا سب سے بڑا اعزاز میگہ سے ایوارڈ ان کو ملا اور پھر انہوں نے دیہی تر قی کے ماڈل کو رورل سپورٹ پرو گرام کا برانڈ نام د یکر سرحد‘ بلوچستان‘سندھ پنجا ب اور آزاد کشمیر میں متعارف کرایا۔
، کس طرح نیشنل رورل سپورٹ پرو گرام (NRSP) کے نا م سے قومی پرو گرام کی داغ بیل ڈالی اور کس طرح ملک بھر کے 9پرو گراموں کو RSPNکے نا م سے ایک الگ چھتری کے نیچے جگہ دی جو با ہم مر بو ط بھی ہیں الگ الگ بھی‘ گویا بقول استاد ذوق لخت دل اور اشک تر دونوں بہم دونوں جدا ہیں‘رواں دو ہم سفر دونوں بہم جدا، پا کستان کے اندر دیہی ترقی کے اس بے مثال ما ڈل نے 44سالوں کے سفر میں کتنی بڑی کامیا بی حا صل کی ہے اس کے دو ثبوت کتاب میں دیئے گئے ہیں‘ پہلا ثبوت یہ ہے کہ ٹاپ باٹم اپروچ کی جگہ باٹم اب اپروچ کو حکومت نے بھی اپنی پا لیسی کا حصہ بنا یا ہے پی پی اے ایف کے ذریعے فنڈنگ میکنزم فراہم کیا ہے دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اب مسعود الملک اور ان کی ٹیم کو ڈونر تلا ش کرنے کی ضرورت نہیں پڑ تی، دنیابھر کے ڈونر خود ان کی تلا ش میں پھر تے ہیں وہ جو فیض نے کہا تھا
ہم نے جو طرز فغان کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہر ی ہے