درمیانی عمر میں باپ بننا بچوں کی صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، تحقیق

اولاد کا خواب تمام جوڑے دیکھتے ہیں مگر خواتین کے لیے درمیانی عمر میں ماں بننا مشکل ہوتا ہے۔

مردوں کو اس مشکل کا سامنا تو نہیں ہوتا مگر درمیانی عمر میں باپ بننے سے بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 45 سال یا اس سے زائد عمر کے مرد جب باپ بنتے ہیں تو بچوں کی صحت پر منفی اثرات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس کی وجوہات تو واضح نہیں مگر تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسا ممکنہ طور پر مردوں کی حیاتیاتی گھڑی کے باعث ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ موجودہ عہد میں مرد تعلیمی اور مالی استحکام کے بعد خاندان شروع کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

ایسے مردوں کو اکثر اولاد کے حصول کے لیے طبی معاونت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

اس تحقیق میں 2011 سے 2022 کے دوران امریکا میں 4 کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچوں کی پیدائش کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق کے مطابق 2011 میں امریکا میں باپ بننے والے مردوں کی اوسط عمر 30.8 سال تھی جو 2022 میں 32.1 سال ہوگئی۔

اس عرصے میں 50 سال یا اس سے زائد عمر میں باپ بننے والوں کی شرح 1.1 فیصد سے بڑھ کر 1.3 فیصد ہوگئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر کے مردوں کے بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، اسی طرح بچوں کا پیدائشی وزن بھی کم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ان بچوں کی نشوونما بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ 45 سال کی عمر کے مردوں کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ 50 سال یا اس سے زائد عمر کے مردوں کے بچوں کے لیے یہ خطرہ 28 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ باپ کی عمر اور اولاد کے حصول کے درمیان بھی تعلق موجود ہے، عمر بڑھنے کے ساتھ یہ امکان کم ہونے لگتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ماضی کی تحقیقی رپورٹس میں بھی دریافت ہوا ہے کہ موجودہ عہد میں مرد تاخیر سے اولاد کے حصول ترجیح دینے لگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 سے 39 سال کی عمر کے مقابلے میں درمیانی عمر کے مردوں کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور کم پیدائشی وزن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل JAMA نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔