یہ جو ملک کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان برسر اقتدار ہیں‘ اس سے عام آدمی کو یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ عوام میں اپنے اپنے نمبر بنانے کے لئے ایک دوسرے کی ضد میں وہ اجتماعی بہتری کے کئی ترقیاتی منصوبوں کا اجرا کر رہے ہیں ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے صوبوں کو عوامی ترقیاتی کاموں میں مات دے‘ان کے اس مقابلے کی دوڑ میں فائدہ عام آ دمی کو ہو رہا ہے۔اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کریں گے آج کے دیگر ا ہم موضوعات کا جو درج ذیل ہیں۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ تو نہیں نکلا پر تا دم تحریرقرائن وشواہد یہ بتا رہے ہیں کہ غزہ جنگ بندی شاید اگلے ہفتے کے اختتام تک ممکن ہو سکے۔ ارشد ندیم نے بلاشبہ جولین تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر ایک کار نا مہ سر انجام دیا ہے جس پر پوری قوم اور حکومت نے حتی المقدور اس کی پذیرائی کی اور اس پر کرنسی نوٹوں کی بارش کی ہے‘پر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے‘ ملک کے دانشور حلقوں نے البتہ یہ محسوس کیا ہے کہ اس معاملے میں overdoing کا مظاہرہ کیا گیا ہے یعنی اعتدال سے کام نہیں لیا گیا۔فارسی زبان کا ایک
مقولہ ہے کہ اگر پری بھی گلے کا ہار بن جائے تو وہ بھی ایک دن بری لگنے لگتی ہے‘ اس کے اعزاز میں پے درپے سرکاری تقریبات کی بہتات سے عام آدمی نے یہ تاثر لیا ہے کہ شاید حکومت کے پاس کرنے کا اور کوئی کام نہیں ہے اسی لئے تو بزرگوں نے کہا ہے ہر شے میں میانہ روی اختیارکرنی چاہیے‘ کسی چیز میں بھی انتہا پسندی کو سنجیدہ طبقوں میں پسند نہیں کیا جاتا‘۔کچھ زیادہ دور کی بات نہیں جب پشاور میں ہر سال باقاعدگی سے فٹبال ٹورنامنٹ ہوا کرتے تھے ہم نے جناح پارک جو ماضی میں کننگم پارک کہلاتا تھا وہاں ان ٹورنامنٹز کے انعقاد کو دیکھا ہے اور شاہی باغ کے گراؤنڈ میں بھی فٹبال کے شائقین کے جم غفیر فٹبال کے میچ دیکھنے جایا کرتے‘ کافی عرصے سے یہ فٹبال ٹورنامنٹز اب تو ایسے ختم ہو گئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘ حکومت کے کھیلوں کے سرکاری محکموں کی طرف سے بھی فٹبال کے کھیل سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا ہے‘ورنہ وطن عزیز میں فٹ بال کا معیار اگر اچھا نہ تھا تو کوئی زیادہ برا بھی نہ تھا‘ دنیا میں اگر نہیں تو کم از کم ایشیا کی لیول پر ہمارا شمار ایشیا کی پہلی تین چار ٹیموں میں ضرور ہوتا، تھا‘کاش کہ حکومتی سطح پر فٹبال کی اسی طرح پذیرائی کی جاتی کہ جس طرح کرکٹ کے کھیل کی کی جاتی رہی ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان نے ا فغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے‘ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کابل کے حکمران اس ضمن میں ہمارے مطالبے کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے‘ پر دوسری طرف ایک ہم ہیں کہ جو اب تک پاکستان میں افغانیوں کی انٹری کا ایسا میکنزم تک نہیں مرتب کر سکے کہ جس کے تحت پاکستان میں بغیر ویزا کے کوئی افغانی داخل نہ
ہو سکے اور پھر پولیس کو پتہ ہو کہ ویزا کی معیاد کے بعد وہ واپس اپنے وطن جا چکا ہے‘ ابھی تک وزارت داخلہ نے قوم کو یہ بھی نہیں بتایا کہ ماضی قریب میں نادرا یا پاسپورٹ آفس کے جن اہلکاروں کی ملی بھگت سے افغان باشندوں کے لئے جعلی شناخت کارڈ بنائے تھے‘ کیا ان کو سخت سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا گیا ہے یا کسی کی سفارش پر ہاتھ ہولا رکھ کر ان کو چھوڑ دیا گیا ہے‘ اس ضمن میں اگر وزیر داخلہ قومی اسمبلی میں ایک واضح بیاں دیں تو بہتر ہو گا۔مختلف برانڈ کے نام سے پانی فروخت کر نے والی بیشتر کمپنیاں ملک میں مضر صحت پانی فروخت کر رہی ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں اور معیار پر پورا نہیں اترتا‘ جس سے معدے کی بیماریاں پھیل رہی ہیں‘منرل واٹر کے نام پر جس پانی کی فروخت کا ملک میں چلن عام ہوا ہے‘ اس کا وجود اس وقت تک نہ تھا جب میونسپل کمیٹیاں اور کارپوریشنز chlorination کلورینیشن کے بعد صاف اور شفاف پینے کا پانی کمیٹیوں کے نلکوں کے ذریعے گھر گھر اور محلوں میں سپلۂی کیا کرتی تھیں‘پر اب یہ باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں۔