پاکستان میں ’مونکی پاکس‘ کے کیسز سامنے آنے کے بعد لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے تشویش پائی جارہی ہے۔ ملک میں رپورٹ ہونے والے کیسز سے سامنے آیا ہے کہ مریض بیرون ملک سے یہ وائرس ساتھ لائے ہیں۔ افریقی خطے سے باہر یہ انفیکشن انسانوں کے سفر یا جانوروں کے ذریعے پھیلا اور مئی 2022ء کے بعد سے ’مونکی پاکس‘ ان ممالک میں بھی رپورٹ ہونا شروع ہوا جہاں اس سے پہلے کوئی ایک کیس بھی نہ تھا، اب تک یہ وائرس برطانیہ، امریکا، کینیڈا، سنگاپور اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں رپورٹ ہوچکا ہے۔
پاکستان میں اپریل 2023 کے بعد گیارہ متاثرہ کیسز اور ایک ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ ایم پاکس کی ’کلیڈ ون‘ قسم کو انتہائی مہلک قرار دیاگیا ہے، افریقہ میں اس کے ایک نئے ویرینٹ کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے منکی پاکس کو عالمی ایمرجنسی قرار دے دیا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق افریقہ کے 13 ممالک میں ایم پاکس کا نیا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے، اس وقت کانگو میں مونکی پاکس کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں رواں سال کا پہلا ایم پاکس کا مشتبہ کیس رپورٹ ہونے کے بعد محکمہ صحت خیبرپختون خوا نے تمام ڈی ایچ اوز سمیت ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس اور بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں کی انتظامیہ کو نئے وائرس کے حوالے سے الرٹ ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق مردان خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص میں خلیجی ملک سے آنے کے بعد ہسپتال میں ایم پاکس کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ محکمہ صحت نے متاثرہ شخص کی ’کانٹیکٹ ٹریسنگ‘ شروع کر دی ہے اور مریض کے گھر والوں سمیت میل جول کے افراد کے بھی مزید نمونے حاصل کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل وزارت صحت پاکستان نے تمام صوبوں کو ایم پاکس کے حوالے سے فوکل پرسنز مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ’بارڈر ہیلتھ سروسز‘ کو تمام داخلی مقامات پر سخت نگرانی کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت نے ایم پاکس کے متاثرہ کیسز کی نگرانی اور علاج کے لیے پولیس سروسز ہسپتال پشاور کو مختص کر دیا ہے۔ صوبے میں اب تک ایم پاکس کے تین کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے دو گزشتہ سال رپورٹ کئے گئے، جو صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ایم پاکس سے متاثرہ حالیہ ایک کیس مردان سے رپورٹ ہوا ہے، واضح رہے کہ خیبرپختون خوا میں کرونا وائرس کا پہلا کیس بھی اسی گاؤں منگاہ میں رپورٹ ہوا تھا۔
ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ خیبرپختون خوا ڈاکٹر ارشاد روغانی کے مطابق ایم پاکس کے مریضوں کے لیے آئسولیشن وارڈز قائم کئے جا رہے ہیں، اس مقصد کے لئے ہسپتالوں کو باضابطہ ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ ایئرپورٹ سمیت بین الاقوامی سرحدوں پر شعبہ صحت کی ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ بیرون ممالک سے آنے والے تمام مشتبہ مسافروں میں مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ ان کامزید کہنا تھاکہ ہمارے ہاں اپنا کوئی کیس سامنے نہیں آیا، جو بھی کیس آرہے ہیں، خلیجی ممالک سے آرہے ہیں۔ ہم پہلے ہی عوام اور طبی عملے کے لیے ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی حکومت نے بھی اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے موزوں اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔