ہم اکثر کہتے ہیں کتنے خو ش نصیب تھے وہ ڈکٹیٹر جن کی قسمت میں آج کل کا میڈیا نہیں تھا ‘لے دے کے دو چار اخبارات تھے ایک عدد ریڈیو تھا‘ جن سے ہر بات چھپائی جا سکتی تھی اور یہ بات ریکار ڈ پر مو جو د ہے کہ ڈکٹیٹر کے خلا ف پورے ملک میں بے چینی تھی ‘ہنگا مے تھے مگر اُن کے لئے دو انگریزی اور دو اردو اخبارات کے جعلی ایڈیشن شائع کئے جا تے تھے ‘صر ف 50کی تعداد میں چھپنے والے یہ ایڈیشن ڈکٹیٹر کے دفتر اور ان کے وزراءکو بھیجے جا تے تھے‘ ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ڈکٹیٹر کے پو توں اور نوا سوں نے ان کے نا م لیکر ہائے ہائے کہتے ہوئے ایک کھیل کھیلا ، ڈکٹیٹر نے ان کو بلا کر پو چھا یہ کھیل تم نے کہاں سے سیکھا ؟ بچوں نے کہا بازار میں جلو س تھا ، جلو س میں یہ کھیل چل رہا تھا ، ڈکٹیٹر نے تین دنوں میں سراغ لگا یا کہ اُس کو تاریکی میں رکھا جا رہا تھا مگر پا نی سر سے گذر چکا تھا ‘سراغ لگا نے کا فائدہ نہیں ہوا ، نصف صدی پہلے کے ڈکٹیٹر خو ش نصیب تھے ان کے دور میں میڈیا نہیں تھا ، ذرائع ابلا غ نہیں تھے‘ چنگیز خان اور ہلا کو خا ن بھی ایسے ہی خو ش نصیب ان کے مظا لم کی ویڈیوز نہیں آتی تھیں ‘مو جو دہ دور کو انفارمیشن ٹیکنا لو جی کا دور کہا جا تا ہے ، انفار میشن ٹیکنا لو جی کیا ہے ؟ یہ اطلا عات اور خبروں کی بہم رسانی کا تیز ترین نظام ہے‘ 1975ءمیں صو بائی دارالحکومت پشاور میں صرف ایک ٹیلی پرنٹر ہوا کر تا تھا اس مشین پر انگریزی میں خبریں آتی تھیں ، مقا می اخبارات کو ما ہا نہ بل دے کراے پی پی سے خبریں خرید نی پڑ تی تھیں ‘اردو اخبارات میں ان خبروں کے ترا جم شائع ہوتے تھے ‘ قومی اور بین الاقوامی خبروں کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا ‘البتہ نیوز ایڈیٹر کی میز پر ٹرانسسٹر ہو تاتھا ‘اگر ریڈیو پر کوئی نئی خبر آجا تی تو اے پی پی کے دفتر کو ہر کارے دوڑا ئے جا تے اور خبر کی تفصیل ٹیلی پرنٹر سے حا صل کی جا تی ، تصویر وں کا معا ملہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا‘ کسی ضلع ، قصبہ یا شہر سے کسی واقعے کی تصویر اخبار کے دفتر میں آنا ممکن نہیں تھا ‘اگر کسی دوست ملک کا صدر یا وزیر اعظم آتا ، یا اپنے ہی ملک کا صدر یا وزیر اعظم کسی مقام کا دورہ کر تا تو اس کی تصویر ہیلی کاپٹر یا جہا ز میں اس کے ساتھ جا نے والا فوٹو گرافر اگلے دن پرنٹ کر کے اخبارات کو بھیج دیتا تھا‘ ایسا نہ ہوتا تو تصویر آنے میں ہفتہ یا 10دن لگ جا تے تھے ‘جن اخباری کارکنوں نے 1999ءکے بعد صحا فت کی پُر خار وادی میں قدم رکھا وہ گذشتہ ادوار کی مشکلا ت سے آگاہ نہیں ہیں ‘ان کے لئے ذرائع ابلا غ کے شعبے میں فیکس مشین ، ای میل کی سہو لت ، فیس بک ، انسٹا گرام ، یو ٹیو ب ، واٹس ایپ ، ورلڈ وائڈ ویب ، ڈارک ویب ، ڈیپ ویب ، آر ٹیفیشل انٹیلی جنس ، چیٹ جی پی ٹی اور دیگر سہو لیات عطیہ خدا وندی سے کم نہیں ‘مگر ایک طبقہ ایسا ہے جس کے لئے جدید دور کی ترقی عذاب ہے اور انفارمیشن ٹیکنا لو جی کی تر قی کے ساتھ ذرائع ابلا غ کی افزونی دس گنا بڑا عذاب ہے یہ وہ طبقہ ہے جو پا کستان کی آبادی کا ایک فیصد ہے‘یہ حکمران طبقہ ہے جو ملک غلا م محمد ، سکندر مرزا ، ایو ب خان اور یحییٰ خان کو خو ش قسمت سمجھتا ہے گور نر جنرل غلا م محمد نے 1951ءسے 1955ءتک حکومت کی‘ 2سال سات مہینے وہ فا لج زدہ رہا ، ہاتھ پاﺅں شل ہوگئے زبان گنگ تھی۔۔۔
اشتہار
مقبول خبریں
سر راہ چلتے چلتے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ویٹی کن کی سلطنت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم اور شاعر
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اٹلی اور نشاۃ ثا نیہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
دو حکمران
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی