بجلی کے آئے روز بڑھتے نرخوں اور ناقابل برداشت بلوں کے باعث ملک میں سولر انرجی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور چھتوں پر اب جابجا سولر پینلز نظر آنے لگے ہیں۔ لوگ مہنگے بلوں سے بچنے کیلئے سولر پینلز خرید رہے ہیں، لیکن ان پینلز پر پیسہ خرچ رکنے سے پہلے یہ جاننا ضرور ہے کہ کس سائز کا پینل آپ کو زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرکے دے سکتا ہے۔
کلین انرجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 210 ملی میٹرز ویفرز، جن کی پیداوار میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے، عالمی سولر مارکیٹ میں گیم چینجر ثابت ہوئے ہیں۔
ریسرچ فرم ”ٹریہنڈ فورس“ کے مطابق، ان ویفرز کی پیداواری صلاحیت 457 گیگا واٹ تک پہنچ گئی ہے، جو عالمی پیداوار کا تقریباً 40 فیصد ہے۔
پاکستان میں موجود سولر انرجی کے متعدد اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ”ٹرائناسولر“ (Trinasolar) ماڈیول 120 گیگا واٹ کی شاندار ترسیل کے ساتھ مارکیٹ میں سرفہرست ہے۔
محققین نے پایا ہے کہ 210 ملی میٹرز کے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز پر مبنی ماڈیولز چھوٹے 182 ملی میٹرز سیلز کے مقابلے بے شمار فوائد پیش کرتے ہیں۔
ان فوائد میں یوٹیلیٹی اسکیل پاور پلانٹس سے لے کر رہائشی تنصیبات تک اعلیٰ کارکردگی، بہتر لاجسٹکس اور ایپلی کیشنز کی ایک رینج میں بڑھتی ہوئی قدر شامل ہے۔
سائز میں ہلکا سا اضافہ سطح کے زیادہ رقبے کی اجازت دیتا ہے، جو فی پینل زیادہ پاور آؤٹ پٹس کا باعث بنتا ہے۔
عملی لحاظ سے ٹرائنا سولر کے 210 ملی میٹر ماڈیولز 23 فیصد سے زیادہ کی کارکردگی شرح کے ساتھ 625 واٹ تک پاور فراہم کر سکتے ہیں، جو کہ نمایاں طور پر پرانے ماڈلز سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق 210 ملی میٹرز ماڈیولز کی طرف صارفین کا جھکاؤ صرف ایک رجحان نہیں ہے بلکہ شمسی ٹیکنالوجی میں ایک اہم چھلانگ ہے۔
پاکستان میں، یہ تبدیلی پہلے ہی متاثر کن نتائج دے رہی ہے۔
مثال کے طور پر“ایس اے کے اسٹیل“ میں، ٹرائناسولر کے ورٹیکس 665 واٹ ماڈیولز کو شمسی توانائی پر برقی اسٹیل فرنس چلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
زمین سے تھوڑا سا ہی اوپر لگائے گئے بائفسیل گراؤنڈ ماونٹڈ ماڈیولز کے استعمال سے پیداوار میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح شالیمار فلٹر انڈسٹریز اپنے پورے کارخانے کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہے، جس کے نتیجے میں 14 سے 16 ماہ کے اندر بجلی کی لاگت میں 24,000 ڈالرز کی سالانہ بچت اور سرمایہ کاری پر واپسی کا تخمینہ ہے۔