داخلوں کا مو سم ہر سال آتا ہے اور گذر جا تا ہے‘ طلباء‘ طا لبات اور والدین کے لئے اس مو سم میں کئی واہمے ہوتے ہیں بے شمار پریشا نیاں ہوتی ہیں سکولوں اور کا لجوں کی سطح پر طبلہ اور والدین کی منا سب رہنما ئی یعنی معروف معنی میں کیرئیر کونسلنگ کا رواج اور دستور نہ ہونے کی وجہ سے منا سب جگہ پر مو زوں اور منا سب مضامین کا انتخا ب کر کے طا لب علم کو داخل کروانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور اس مشکل مر حلے میں غلط جگہ یا غلط مضمون کا انتخا ب آگے جا کر علمی تر قی اور کا میاب زند گی کی راہ میں رکا وٹ بن جاتا ہے‘ اگر چہ پرائیویٹ سکولوں اور کا لجوں نے کیرئیر کونسلنگ کا شعبہ کھولا ہوا ہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے بر ابر ہے اور یہ سہو لت صر ف امیر طبقے کو حا صل ہے اس لئے ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ما ہرین تعلیم کے ذریعے داخلوں کے مو سم میں طلبہ اور والدین کی رہنما ئی بہت ضروری سمجھی جا تی ہے جب تک تعلیمی اداروں میں ایسی رہنما ئی کا مر بوط اور منظم طریقہ کار اختیار نہیں کیا جا تا تب تک اس کمی کو ذرائع ابلا غ‘ ریڈیو‘ ٹیلی وژن اور اخبارات کے ذریعے پورا کیا جائے گا‘ عموماً یہ سمجھا جا تا ہے کہ
کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے وقت مضمون کا انتخاب والدین یا سر پرستوں کی ذمہ داری ہے حا لانکہ یہ حقائق کے منا فی ہے 16یا 18سال کی عمر میں امتحا ن پا س کر نے والا چاہے میٹرک کا طالب علم ہو یا انٹر میڈیٹ کا ہو دونوں صورتوں میں و ہ اپنے لئے مو زوں شعبے کا انتخا ب کر سکتا ہے نتیجہ وہی بہتر آئیگا جو طالب علم کا انتخا ب ہوگا ماں باپ اور سر پرست اپنی مر ضی اُس پر تھوپنا چاہیں گے تو نتیجہ بہتر نہیں ہو گا‘ کیرئیر کونسلنگ کے ما ہرین نے اس مو ضو ع پر لٹریچر کا بڑا ذخیرہ تخلیق کیا ہے ما ہرین کی نظر میں طالبعلم کے ذہنی میلان اور رجحا ن کا پتہ پرائمری جما عتوں میں ہی لگ جا تا ہے چین اور جا پان میں پرائمری سطح کی تعلیم ساتویں جماعت تک ہوتی ہے ساتویں جماعت کے بعد والدین اور
طلبہ سکول کے اساتذہ کی رہنما ئی میں طے کر تے ہیں کہ آگے کیا کرنا چاہئے جن طلبہ کا ذہنی میلا ن حیوا نات و نباتات کی طرف ہوتا ہے ان کو میڈیکل کا شعبہ دیا جا تا ہے جن کا رجحان چاند‘ تاروں اور پہاڑوں کی طرف ہوتا ہے ان کو انجینئر نگ کا شعبہ دیا جا تا ہے اس کے بعد دوسرے شعبوں کے لئے طلبہ کا انتخا ب کیا جاتا ہے 80فیصد طلبہ رہ جاتے ہیں ان کے لئے کھیل‘ جمنا سٹک‘ ووکیشنل ٹریننگ‘ فنی مہا رتیں‘ ٹیکنیکل سکلز کا انتخا ب کیا جاتا ہے اس طرح طلبہ کی تین چوتھا ئی تعداد یعنی بھاری اکثریت پرائمری تعلیم کے دو سال بعد کا م میں لگ جا تی ہے زراعت کے جدید فارموں اور کارخا نوں کا رخ کر تی ہے یا سپورٹس کلبوں میں مصروف ہوتی ہے صرف 20فیصد کو ان کی دلچسپی کے 16 یا 18سال کی اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں بھیجا جا تا ہے اس کے دو فائدے ہیں پہلا فائدہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تر بیت کے اعلیٰ اداروں میں طلبہ کا غیر ضروری رش اور جمگھٹا نہیں ہوتا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افراد ی قوت ضا ئع نہیں
ہوتی‘ کا م میں لگ جا تی ہے ہر نو جوان کمانے والا اور پیدا وار دینے والا ہوتا ہے جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار اور فی کس آمدنی میں وافر حصہ ڈالتا ہے اسکے مقا بلے میں اگر ایک طالب علم کا رجحا ن کھیل کی طرف ہے ماں باپ اس کو اپنی تمنا اور آرزو کی تکمیل کے لئے میڈیکل یا انجینئرنگ کی طرف دھکیلتے ہیں تو نو جوان ضا ئع ہوتا ہے یا کسی طالب علم کا رجحا ن فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ مو سیقی‘ شاعری‘اداکاری وغیرہ کی طرف ہے مگر والدین اس کو کسی اور طرف ہانک کر لے جا تے ہیں تو اس کا مثبت نتیجہ نہیں آتا‘ اسی پر دیگر شعبوں کو قیا س کیا جا سکتا ہے‘ داخلوں کے مو سم میں سب سے مقدم طالب علم کی رائے ہے اس کی دلچسپی کس مضمون اور کس شعبے میں ہے اس کو اولیت ملنی چاہئے اس کے بعد طالبعلم کے نتیجے میں جس مضمون کے نمبر زیادہ ہونگے وہی مضمون بہتر رہے گا‘ تیسرے درجے میں قا بل غور بات یہ ہے کہ سو لہ سال کی اعلیٰ تعلیم کے مقا بلے میں دو سال یا چار سال کی فنی تعلیم‘ ٹیکنیکل ایجو کیشن طالب علم کے لئے بہتر ہے یہ داخلوں کا مو سم ہے اس لئے طلبہ کو بھی اور والدین کو بھی درست ترجیحا ت کا تعین کرنا ہوگا۔