صحا فت میں ابہا م 

کیا ستم ظریفی ہے ابہام لکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت مشکل لفظ لکھا، کنفیو ژن لکھتا تو آسان اور عام فہم ہو تا حا لانکہ کنفیو ژن اردو نہیں انگریزی ہے اور ہمیں اردو سے بھی آسان لگتا ہے، صحا فت میں ابہا م یا کنفیو ژن سو شل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے، سما جی رابطے کے ذرائع استعمال کر کے اپنی رائے دینے والوں کی تعداد ہر شہر میں اور ہر قصبہ یا ضلع میں ہزا روں سے بھی زیا دہ ہے، قاری حنیف ڈار اور رشید یو سفزئی سمیت سو شل میڈیا کے فعال شرکاء کو صحا فی کہا جاتا ہے اور کوئی بات کسی کے طبع نا زک پہ گراں گذرے تو طعنہ دیتا ہے کہ تم صحا فی ہو کے یہ کیا کر رہے ہو؟ اسی طرح اخبار کے کسی بھی صفحے پر کا لم لکھنے والوں کو بلا امتیاز سب لو گ صحا فی کا در جہ دیتے ہیں حالانکہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، شاعر کا خیال اپنی جگہ مگر یہاں دوستی سے صحا فت مراد ہے، اس بات کو عام قارئین تک پہنچا نے کے لئے، مسکین حجا زی کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے تاہم حوالے کے بغیر بھی اس کی وضا حت کی جا سکتی ہے، پوری دنیا سے صحا فیوں کی ٹریڈ یونین سر گرمیان اخبارات میں آتی ہیں ٹریڈ یونین کے اصول وضوابط کے مطا بق کسی اخبار یا نشریا تی ادارے کے ”شعبہ خبر“ سے وابستہ پیشہ ور کا رکن صحا فی کہلا تا ہے، اخبار کے صٖفحات پر کالم لکھنے والا اگر پیشہ ور کارکن نہیں ہے تو وہ صحا فی نہیں کہلا تا اگر مثال دینی ہو تو مر حوم رحیم اللہ یو سفز ئی صحافی بھی تھے‘ کالم نگار بھی تھے، سہیل وڑائچ صحا فی بھی ہے کالم نگار بھی، ایا ز امیر، سید مظہر علی شاہ اور نا صر علی سید بہت پا یے کے لکھا ری ہیں‘کا لم نگار ہیں مگر ٹریڈ یونین کے حساب سے وہ صحا فی نہیں کہلاتے کیونکہ اخباری صنعت کے کارکنوں میں شامل نہیں ہیں‘ صحا فی کی تعریف پر پورے نہیں اتر تے، مو جو دہ حا لات میں اخباری کا رکنوں نے اپنا یو ٹیو ب چینل کھو لا ہوا ہے وہ یو ٹیو ب چینل کی وسا طت سے صحا فیوں میں شامل نہیں‘ البتہ اخباری کارکن کے طور پر ٹریڈ یونین ان کو صحا فی مانتی ہے‘ مگر یو ٹیوب پر مو جود لو گوں میں جن کا تعلق اخباری صنعت کے رجسٹرڈ کارکنوں سے نہیں ان کو ٹریڈ یونین صحافی تسلیم نہیں کر تی کیونکہ صحا فت کا معیار یو ٹیو ب نہیں بلکہ اخباری صنعت ہے، اسی طرح فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع پر پو سٹ لگا نے والا اگر اخباری صنعت سے وابستہ ہو تو صحا فی کہلا ئے گا، اخباری صنعت سے منسلک نہ ہو تو صحا فی کہلا نے کا مستحق نہیں ہو گا۔ ابہام اس لئے پیدا ہوا کہ ہم نے صحا فت کا دائرہ اپنی طرف سے اپنی دانست میں وسیع کر کے دور دور تک پھیلا دیا ہے‘ فیس بک پر اپنی خوا ہش اور آر زو کے مطا بق رائے دینے والے کو صحا فی سمجھ کر اس پر جا نبدار ہونے کا الزام لگا تے ہیں‘حالانکہ وہ اپنی خوا ہش کا اظہار کر تا ہے اور خوا ہش میں غیر جا نبداری نہیں دیکھی جا تی، خوا ہش اور آر زو یک طرفہ بھی ہو سکتی ہے اور بسا اوقات ایسی ہی ہو تی ہے، یہ ہماری عمو می غلط فہمی ہے کہ ہم نے ہر لکھنے والے کی ہر تحریر کو صحا فت کا درجہ دے کر ابہام پیدا کیا ہے‘ اخباری صنعت میں ٹریڈ یونین کا اپنا ضا بطہ اخلا ق ہے‘ضا بطہ اخلا ق کی رو سے صحا فی جب کسی واقعے کی خبر لکھتا ہے تو غیر جا نبداری کے ساتھ لکھنا چاہئے خبر کا رخ کسی کے حق میں یا کسی کے خلا ف موڑ دینا جا نبد اری یا بد دیا نتی میں شمار ہوتا ہے‘ مثلا ً نائن الیون کی خبر نشر کرتے وقت جن صحا فیوں نے خبر کے ساتھ افغانستان کا نا م لیا اور فلسطینی عوام کی عید کی تصویر یں لگا کر خبر کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا‘وہ جا نبداری اور بد دیا نتی تھی‘وطن عزیز پا کستان کی صحا فت میں بھی اہم واقعات کی رپورٹنگ میں جانبداری کی مثا لیں دی جا سکتی ہیں دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے‘ اب اس ابہام کو ختم ہونا چاہئے‘ سوشل میڈیا اور اخباری صفحات میں اپنی رائے لکھنے والے ہر لکھا ری کو صحا فی قرار دینا غلط فہمی کا نتیجہ ہے‘صحا فت باقاعدہ پیشہ ہے اور بہت کم لو گ اس پیشے سے منسلک ہوتے ہیں۔