عوام نے ادارہ شماریات کے مہنگائی کم ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیدیا

ادارہ شماریات کی جانب سے 9 ماہ میں مہنگائی کی شرح 33 فیصد سے کم ہو کر 9 فیصد کے دعوے کو عوام نے جھٹلادیا۔

 شہری کہتے ہیں کہ چیزوں کی قیمتیں تو کم ہوئی ہی نہیں، سب کی سب مہنگی ہیں ، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ہر طبقے خصوصاً متوسط اور غریب طبقے کو شدید متاثر کیا ہوا ہے جس کی وجہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں عدم استحکام ہے اور اسی وجہ سے مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

 260 روپے کلو میں ملنے والی دال ماش اب 400 روپے کلو میں فروخت کی جا رہی ہے، 290 کی دال مونگ 380 روپے، 450 روپے کلو والا گھی 480 روپے، 280 روپے کلو والے چاول 340 روپے کلو، 340 روپے والی شیمپو کی بوتل 380 روپے اور75 روپے میں ملنے والا دودھ کا ڈبہ 95 روپے کا ہوگیا ہے۔

اس کے علاوہ مرغی کا گوشت 700 روپے اور گائے کا گوشت 1200 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

 شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اعداد و شمار کا عام آدمی کے بجٹ سے کوئی تعلق نہیں۔

اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ اپنی جگہ لیکن ایسے میں ادویات ہوں، درسی کتب یا کپڑے جوتے، ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے  جب کہ کنسٹرکشن کے کام میں استعمال ہونے والی سیمنٹ، بجری اور سریے سمیت ہر چیز میں اضافے سے کنسٹرکشن انڈسٹری بھی متاثر ہے۔

 تاجر کہتے ہیں کہ حکومتی ٹیکسز کا بوجھ بلآخر عام آدمی پر ہی پڑتا ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق ماہ اگست میں مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد یعنی سنگل ڈیجٹ پر آنے کے اعدادوشماراپنی جگہ  لیکن ہر ماہ اگر یہی سنگل ڈیجٹ مہنگائی کا تناسب بھی رہا تو عام آدمی کی قوت خرید دم توڑ جائے گی۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت ٹیکسز میں کمی کرکے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھا کر عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات اٹھائے۔