قومی مکالمہ 

وطن عزیز پاکستان کو درپیش حالات اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے قومی مکالمہ کے نام سے وسیع تر اتحاد اور اتفاق کی تجویز اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے پیش کی گئی ہے لیکن وطن کے اندر مچھلی بازار یا نقارخانے کا شوروغوغا برپا ہے اس لئے کوئی بھی شخص کسی سنجیدہ بات کو سننے پر آمادہ نہیں 25 کروڑ عوام اور مٹھی بھر خواص کوجب بھی کچھ کہنے کاموقع ملتا ہے ان میں ہرایک مایوسی اور ناامیدی کی بات کرتا ہے مثلاً کچھ نہیں ہوگا یہ ملک نہیں سدھرے گا، زوال کی طرف سفر کوروکنا محال ہے، سرنہ کھپاؤ، اپنا کام کرو، ملک اور قوم کا خداحافظ، یہ ایسی باتیں ہیں جو خود زوال کی علامتیں ہیں مایوسی گناہ ہے مسلمان اللہ پاک کے رحم وکرم سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ ہمارے سرپراس وقت جوکالے بادل منڈلارہے ہیں یہ وہی بادل ہیں جو 1971ء میں وطن کی فضاؤں پرگردش کررہے تھے بادلوں کامنبع بھی وہی جگہ ہے یعنی بحرہندکی طرف سے آنے والے بادل ہیں ان بادلوں کے اندر جو عذاب نظرآرہا ہے وہ بھی نہایت خوف ناک اور بھیانک عذاب ہے اس عذاب سے خود کواور اپنے ملک وقوم کو بچانے کا راستہ صرف قومی مکالمہ ہے۔قومی مکالمہ کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے یونیورسٹی کا آڈیٹوریم سامعین سے بھرا ہواتھا پانچ ہزار کا مجمع تھاغیر ملکی مہمان نے سیاسی طرز فکر اورمفاہمت پر خطاب کیا اور آخر میں سوالات پوچھنے کی دعوت 
دی ایک پاکستانی صحافی نے مہمان مقرر سے پوچھا کیا آپ کے نقطہ نظر سے پاکستان میں بھی ان اصولوں پر سیاسی طرز فکراپنا کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟ مقررنے صحافی سے پوچھا آپ کو پاکستانیوں کی قابلیت پرکیوں شک ہورہا ہے؟صحافی نے کہا ہمارے ملک میں 
سیاست کی بنیاد نظریات پر نہیں، دولت اور طاقت پر ہے، حکومت میں آنے کے لئے نظریات کا پرچار نہیں ہوتا دولت اور طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ مہمان نے پوچھا کیا اس ملک میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات والے سیاست اور حکومت میں نہیں ہوتے؟صحافی نے کہا بائیں بازو کاکوئی تصور نہیں صرف دایاں بازو ہے جو جاگیرداری، سرمایہ داری اور اجارہ داری پر یقین رکھتا ہے، مہمان نے سرد آہ بھرتے ہوئے پانی مانگا، پانی کا گھونٹ لینے کے بعد اس نے تین باتیں کہہ کراپنی تقریر ختم 
کی ان کی پہلی بات یہ تھی کہ حکومت اور سیاست کے حصہ داروں کو ملک اور قوم کے ساتھ وفادار ہونا چاہئے اگرملک اورقوم کے ساتھ وفاداری ہوگی تو سیاسی مفاہمت کے لئے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا مشکل نہیں ہوگا دوسری بات یہ تھی کہ حزب اقتدار اورحزب اختلاف کے ہرلیڈر کا ماضی کرپشن سے پاک ہونا چاہئے جب ماضی کرپشن سے پاک ہوگا توحکومت ہاتھ سے جانے کا خوف ختم ہوجائے گا۔ ناروے، سویڈن، برطانیہ اور جرمنی کی طرح قوم کا ہر لیڈر ہر وقت حکومت کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگا اس کے مالی مفادات سرکاری خزانے سے وابستہ نہیں ہوں گے اس کاماضی جرائم پیشہ لوگوں میں نہیں گذرا ہو گا، اس تین نکاتی مفاہمتی ایجنڈے کے آئینے میں ہرلیڈر کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے جس کا ریکارڈ جرائم سے پاک ہوگا اس کومفاہمت سے خوف نہیں ہوگا ہمارے پاک وطن کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوریت کاتجربہ ابھی تک نہیں کیا،ہم نے سول آمریت اور سرکاری بادشاہت کے دو نظاموں کاباربار تجربہ کیا ہے دونوں نظاموں سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔ قومی مکالمہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سیاست اور حکومت کے حصہ داروں کا آپس میں اعتماد کا رشتہ دوبارہ بحال ہوگا،قومی اداروں پرقوم کا اعتماد پھر سے بحال ہوگا اور قوموں کی برادری میں ہم ایک بار پھر فخر کے ساتھ اپنا سر بلند کرکے آگے بڑھ سکیں گے۔