مسلما نوں کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے کہ تمہارے لئے خا تم الانبیا ء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زند گی بہترین نمو نہ ہے اس پر چلو گے تو اللہ کی رضا اور آخر ت کی کا میابی حا صل ہو گی‘ شارحین نے لکھا ہے کہ دنیوی باد شا ہت، کامیا بی اور کا مرانی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا منطقی نتیجہ ہے اس لئے آ خر ت کے مقا بلے میں اس کا ذکر نہیں آیا‘ اس کو اخفا میں رکھا گیا ہر سال 12ربیع الاول کو اسلا م آباد میں حکومت پا کستان قومی سیرت کا نفر نس کا اہتمام کر تی ہے‘ عام تقا ریر، خطبات اور مقا لا ت کی طرح اس کا نفرنس میں بھی مسلمانوں کی 1400سالہ تاریخ دہرائی جا تی ہے جدید زما نے کے چیلینجوں کا ذکر نہیں ہو تا، عہد حا ضر کو سامنے رکھ کر مطا لعہ سیرت کی دعوت نہیں دی جا تی اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں عہد حا ضر کے واضح اور نما یاں خطرات کا مقا بلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے پر تو جہ مر کوز نہیں کی جا تی‘ اس وقت امت مسلمہ کو پوری دنیا میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے پہلا چیلنج یہ ہے کہ دنیا کی 8ارب آبادی میں دو ارب مسلمان ہیں ان میں سے 80کروڑ کی مسلم آبادی غیر مسلم مما لک میں اقلیت کی حیثیت سے محکوم زند گی گذار رہی ہے جبکہ ایک ارب 20کروڑ مسلم آبادی ایسے مما لک میں رہتی ہے جن کے حکمران مسلمان ہیں اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، کسی کے محکوم نہیں مگر 57اسلا می مما لک میں سے ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں معیشت سود سے پا ک ہو، جہاں عام خوراک حرام سے مبرا اور پا ک ملتی ہو عوام پر کسی شخصی حکومت کا ظلم و جبر نہ ہو اور جہاں مسلمانوں کو شریعت کے مطا بق زند گی بسر کرنے کی پوری آزادی ہو یہ بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے ستم یہ ہے کہ اس چیلنج کا کسی کو بھی احساس نہیں‘علا مہ اقبال نے 100سال پہلے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا ”اے وائے نا کا می متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جا تا رہا“ عہد حا ضر کا دوسرا چیلنج یہ ہے کہ جدید دنیا کو علوم و فنون کی تر قی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے موٹر، لا ری، بس، ریل سے لیکر ہوائی اور سمندری جہازتک نقل وحمل کے لئے ذرائع آئے، بجلی اور کمپیو ٹر کے ذریعے لا کھوں اقسام کی آسا نیاں اور سہو لتیں زندگی میں داخل ہو گئیں، خلا ئی سائنس میں نئے علوم دریافت ہوئے، کمپیو ٹر نے مصنو عی ذہا نت کے نا م سے نیا جا دو ایجا د کر لیا ان تما م ایجا دات و احترا عات میں مسلما نوں کا حصہ صفر کے برابر ہے‘آنے والی صدیوں کے لئے بھی مسلمانوں کے پا س علوم و فنون میں آگے بڑھنے اور دیگر اقوام کا مقا بلہ کرنے کا کوئی ارادہ، پرو گرام یا منصو بہ نہیں ہے، مذکورہ بالا دونوں خطرات یا چیلنج ایسے ہیں جو ہمیں اسوہ حسنہ کی طرف خلو ص نیت اور خلو ص دل سے رجو ع کرنے کی دعوت دیتے ہیں اس پر باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے کہ عہد حا ضر کے لئے اسوہ حسنہ کا پیغام کیا ہے؟ اور جو بھی پیغام ہے اس کو عملی طور پر اپنا کر دکھا نے کی حکمت عملی کیا ہو گی! مدنی زندگی کے دوسرے سال جنگ بدر کے مشرک اور کافر قیدیوں کا معا ملہ سامنے آیا، اسوہ حسنہ کی صورت میں جو نمو نہ سامنے آیا وہ یہ ہے کہ مشرکین اور کا فروں میں جو پڑھے لکھے قیدی ہیں وہ نا خواندہ مسلما نوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں گے تو ان کو آزاد کیا جا ئے گا‘ پہلی صدی ہجری میں جو علم پڑھنے لکھنے تک محدود تھا وہ علم پندر ہویں صدی ہجری میں سائنس اور ٹیکنا لو جی کہلا تا ہے یہ علم آج بھی یہو د و ہنود، مشرکین، ملحدین اور نصا ریٰ کے پا س ہے اسوہ حسنہ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان غیر وں سے یہ علوم حا صل کر کے ترقی کی دوڑ میں دوسری اقوام سے آگے نکلنے کی کوشش کریں ہجرت کے پانجویں سال غزہ احزاب کا معرکہ پیش آیا‘ اسوہ حسنہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایران سے آئے ہوئے عجمی صحا بی سلمان فارسی ؓ کی تجویز پر خندق کھو د کر مدینہ کا دفاع کیا یہاں عرب و عجم کا فرق مٹا دیا‘مو جود ہ دور کے بے شمار فتنوں میں ایک فتنہ بغض، حسد، اور دشمنی کا فتنہ ہے جس نے امت مسلمہ کو متحا رب فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خون کے پیا سوں پر جب قابو پا یا تو پہلی نظر میں ان کو معاف کر دیا، دل میں کسی کے لئے کدورت نہیں رکھی عہد حا ضر کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خا تم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
آج مسلما نوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے جو بغض و عداوت ہے اس کو اسوہ حسنہ پر اخلا ص کے ساتھ عمل کرتے ہوئے محبت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
سلا م اس پر جس نے بیکسوں کی دست گیری کی
سلا م اس پر جس نے باد شا ہی میں فقیری کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔