80سال کے ایک نیم خواندہ تاجر مقا می پریس کلب میں کسی سے ملنے آئے، دوستوں نے بزرگ کو باتوں میں لگا یا ان کی باتیں بڑے بڑے دانشوروں سے زیا دہ دلچسپ تھیں ان کے مشاہدات اور تجربات میں معلو مات کا خزانہ نظر آتا تھا، جب وہ آئے تھے ہم مو جود ہ سیا سی صورت حال اور اس میں تازہ ترین بیانات پر رائے زنی کر رہے تھے ہماری باتیں سن کر انہوں نے بڑے پتے کی ایک بات کہی اُنہوں نے کہا ”چوہے بلی کا کھیل ہے“ پھر انہوں نے جو کچھ کہا وہ لکھا نہیں جا سکتا، ہم نے بات کا رخ ملک کو درپیش مسائل کی طرف موڑ دیا اُس نے کہا اعتماد کا فقدان پہلا مسئلہ ہے یہ مسئلہ حل ہوا تو سارے مسائل حل ہو جائینگے ہم نے کہا اعتماد کو کیا ہوا؟ اُس نے کہا 1961ء کا زما نہ مجھے یا د ہے میں کپڑے کے بڑے کارخا نے میں مزدوری کر تا تھا کراچی کو غریب پرور شہر کہا جا تا تھا ہم 5مزدور ایک کمرے میں رہتے تھے، ہمارے ایک ساتھی کے پا س ٹرانسسٹر ریڈیو تھا صدر جب ریڈیو پر قوم سے خطاب کر تا تو ہم بڑے شوق سے اس کی انگریزی تقریر سنتے جو 6سے 7منٹ کی مختصر تقریر ہوتی تھی اور سال میں ایک یا دو بار ہو تی تھی اُس کی ہر بات پر ہم کو یقین ہوتا تھا ہم ان کی باتیں تر جمہ آنے کے بعد سمجھتے تھے اور اگلے روز دوسروں کو بتا تے تو وہ بھی پورے یقین کے ساتھ دلچسپی لیکر سنتے تھے، یہ اعتماد تھا، چند سال بعد میں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا تجارت میں ہم سالا نہ بجٹ کو دیکھتے تھے، کون سی چیز سستی ہو گی کون سی چیز مہنگی ہو گی بجٹ کو دیکھ کر ہم جواندازہ لگا تے وہ سال بھر ایسا ہی ہو تا تھا اس میں انیس بیس کا فرق نہیں ہوتا تھا‘بجٹ پر تا جروں کو اعتماد تھا، سال میں ایک آدھ بار ہمارے بازار میں کوئی مسئلہ ہوتا تو بازار کے چوہدری کو کسی ممبر یا آفیسر سے ملنے کے لئے بھیجتے تھے، ممبر یا آفیسر جو کچھ کہتا تھا ایسا ہی ہو جا تا تھا ہم کو اس کی بات پر پورا پورا اعتماد تھا چونگی، محصول، ٹیکس اور دیگر چھوٹے موٹے مسائل کے لئے بازار کا چوہد ری ایک درخواست بھیجتا تھا دوسرے دن اس درخواست پر غور ہو جا تا تھا، دفتر پر ہمارا پورا اعتماد تھا آج میرے بیٹے اور پوتے کاروبار کر تے ہیں‘مجھے حیرت ہوتی ہے آج بازار میں شٹر ڈاون ہڑ تال کے بغیر کوئی معمولی مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا، دیہاتیوں، کسا نوں، مزدوروں، سرکاری ملا زمین کا بھی ایسا ہی حال نظر آتا ہے وہ بھی اپنے مطا لبات کے لئے جلو س، جلسہ، ریلی اور بھوک ہڑ تا ل کر تے ہیں تو مسئلہ حل ہو جا تا ہے اس کے بغیر ان کی بات کوئی نہیں سنتا‘ بزرگ رخصت ہوا تو گفتگو کا رخ ہم نے اعتماد کے فقدان کی طرف موڑ دیا اور اخباری روایت کے مطا بق ”فلیش بیک“ کر کے ماضی میں جھا نکنے کی کو شش کی تو 1980ء کا عشرہ نظر آیا جو اعتماد ٹوٹنے کا پہلا عشرہ تھا کر اچی میں تبا ہی اور بربادی اُس دور میں آئی، وزیر ستان میں دہشت گردی اُس زما نے میں لائی گئی‘ ایک آگ جنو ب کی طرف سے پھیلنے لگی دوسری آگ شمال کی طرف سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی، عوام اور حکام میں بد اعتمادی پیدا ہوئی، دونوں ایک دوسرے کو شک کی نگا ہ سے دیکھنے لگے بدا عتمادی کی یہ وباء سیا ستدانوں تک پھیل گئی سیا ست دانوں پر عوام کا اعتماد ختم ہوا پھر بد اعتمادی نے عدلیہ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا خو د کش جیکٹ کے ساتھ مجر م پکڑے جا تے تھے چند دنوں کے بعد بری کئے جا تے تھے، لو گ سوچنے لگے ہمارا دشمن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا پھر کس طرح بری ہوگیا؟ آہستہ آہستہ بدا عتما دی کی یہ لہر دوسرے قومی اداروں تک پھیل گئی الغرض کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہا، 1961ء میں صدر 6منٹ تقریر کرتا تھا تو لو گ مان لیتے تھے آج کا حکمران گھنٹہ، سوا گھنٹہ بولتا ہے مگر مانتا کوئی نہیں ایک ٹرانسسٹر کی جگہ سینکڑوں ٹیلی وژن چینل حکمران کی تقریر دکھا تے ہیں حکمران کی باتوں میں عوام کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے ہم نے مانا یہ اعتما د کا فقدان ہے سب سے پہلے اعتماد کے فقدان سے نجا ت پا نے کی ضرورت ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
سر راہ چلتے چلتے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ویٹی کن کی سلطنت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم اور شاعر
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اٹلی اور نشاۃ ثا نیہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
دو حکمران
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی