دستکاریوں کی ضرورت 

خیبر پختونخوا کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ ہمارا خطہ دستکاریوں اور گھریلو صنعتوں کے لئے شہرت رکھتا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر آلائی بٹگرام، اپر سوات اور چترال تک ہاتھ سے بُنی ہوئی اشیاء اور ہاتھ سے کاڑھی ہوئی ملبو سات بہت مقبول ہیں، پشاور شہر کی گھریلو دستکاریاں ماضی قریب تک وسطی ایشیا، یورپ اور جنو بی ایشیا کے بازاروں تک جا تی تھیں، پھر مشینوں کا دور آیا، مشینوں نے انسا نی ہاتھوں کی جگہ لے لی، آج بھی وطن کے اندر اور بیرون ملک ہا تھ سے بنی ہوئی چیزوں کو مشینی اشیاء پر فو قیت دی جا تی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھ کے ہنر میں وقت زیا دہ لگتا ہے اس کی قیمت بھی زیا دہ ہوتی ہے اس وجہ سے تھوک اور پر چون سودا گر مشینی اشیاء سے اپنی دکان سجا نا نسبتاً آسا ن اور نفع بخش سمجھتا ہے اور بازار کا رخ دستکاریوں کی جگہ مشینی پیداوار کی طرف موڑ دیتا ہے‘ بازار میں گا ہک کو دستکاری بہت کم ملتی ہے، دستکاروں نے اس کا حل یوں نکا لا ہے کہ انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی مصنو عات کی تشہیر کر کے آن لائن آرڈر وصول کر تے ہیں اور ڈاک کے ذریعے مال گاہکوں تک پہنچا تے ہیں۔اسلا م آباد، لاہور اور پشاور میں جب نما ئش لگتی ہے تو ماہر دستکار مرد اور خوا تین اس میں اپنی نئی اور پرانی مصنو عات کے سٹال لگا تے ہیں ان سے گفتگو کا بھی مو قع ملتا ہے، دستکا روں میں زیا دہ تعداد خوا تین کی ہوتی ہے، مر دوں میں دستکاری سے کما نے کا رجحا ن کم نظر آتا ہے، پاڑہ چنار، وزیر ستان، دیر، باجوڑ اور مہمند کی خوا تین نما ئشوں میں کبھی نہیں آتیں‘ ان کی دستکاریوں کو پر چون فروش سودا گر نما ئشوں میں لا تے ہیں، پشاور، ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ اور چترال کی خوا تین خو د اپنی دستکاریوں کے سٹال لگا تی ہیں۔آزاد کشمیر او ر گلگت    بلتستان کی خواتین بھی خود سٹال لگا تی ہیں‘ دستکار خواتین و حضرات سے مختصر گفتگو کے نتیجے میں چار اہم مسا ئل سامنے آتے ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ دستکاری کے لئے خام مال چند سالوں سے مندے کا شکار ہے، مقا می اون، مقا می دھا گہ، مقا می پھلوں اور جڑی بو ٹیوں سے حا صل کیا ہوا رنگ نہیں ملتا، کڑھائی کے نا زک کام کے لئے مقا می طور پر تیار کر دہ ریشم دستیاب نہیں،  چند سال پہلے تک گھروں میں ریشم کے کیڑے پال کر ریشم حا صل کیا جا تا تھا، چترال کی زبان کھوار میں اس کو کچ اورریشم کے کیڑوں کو کچ گو غو کہا جا تاتھا اب وہ دونوں بھلا دیئے گئے ہیں‘گھر کی چیزیں ریشم اور اون بھی بازار سے خرید نا پڑتی ہے، دوسرا مسئلہ افرادی قوت کا ہے چند سال پہلے تک گھر کی بچیاں سلا ئی کڑھائی اور بنا ئی میں دستکاروں کا ہاتھ بٹا تی تھیں خود بھی دستکاری سیکھتی تھیں اب وہ سکول اور کا لج جا تی ہیں یا نو کر یاں کر تی ہیں‘ دستکاری میں دلچسپی نہیں لیتیں‘ اس طرح دستکاری میں وقت زیا دہ لگتا ہے اور گھروں میں دستکاری کو آئندہ نسلوں تک جا ری رکھنے کی امید ختم ہو گئی ہے، تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ چند سال پہلے تک سلا ئی، کڑ ھائی اور بنا ئی کی جو مصنو عات ہوتی تھیں وہ مقامی طور پر شادی بیا ہ اور خو شی کے دیگر موا قع پر بکثرت استعمال ہو تی تھیں اب شادی بیا ہ اور دیگر رسو مات کے دستور اور رواج بدل گئے ہیں‘ دولہا اور دلہن دونوں کے لئے گھریلو دستکاریوں کی مصنو عات استعمال نہیں ہوتیں ”زما نے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے“ چوتھا اور سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ بازار میں گھریلو دستکاریوں کے نر خ کا مشینی ملبو سات کے ساتھ مقا بلہ اور موا زنہ ہو تا ہے‘گھریلو دستکاری کی قدرو قیمت کو پہچا ننے والے بہت کم ہیں، گھریلو دستکاریوں کا بنیا دی تعلق گھریلو ضروریات سے تھا، مثلا ً اونی پٹی، اونی چغہ، اونی جرسی، اونی ٹو پی، اونی مفلر، اونی دستانے، اونی جرابیں پہا ڑی علا قوں میں پہنی جا تی تھیں، دیر اور سوات کی ٹو پیاں بھی رو زمرہ زند گی میں استعمال ہوتی تھیں، وقت گذر نے کے ساتھ دستکاروں نے وقت کا ساتھ دیا، ریڈیو کے لئے ریشمی کڑ ھائی والا کور (Cover) بنا لیا، گاڑی کی سٹیرنگ اور گیروں کے لئے ریشمی کڑھائی اور مو تیوں والے ہار بنا لئے جنہیں وزیر ستان سے سوات تک ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے‘ گھریلو دستکاری کی آج بھی ضرورت ہے‘ یہ ایک طرف آمد نی کا ذریعہ ہے‘ دوسری طرف ہماری ثقافت کی زندہ علا مت ہے۔