اخباری رپورٹر وں کا ایک وفد پا ک افغا ن سرحد پر واقع گاؤں کا دورہ کر رہا ہے‘ گاؤں کے لو گ اس بات پر کا فی رنجیدہ ہیں کہ حکومت نے ان کے سرکاری سکول کو کسی سیٹھ کے ہا تھ فروخت کرنے کی منظوری دی ہے گاؤں والوں کا پہلا غم یہ ہے کہ سر حد پار دشمن کو اس سکول پر پا کستان کا قومی پر چم نظر آتا ہے تو وہ غصے سے لا ل پیلے ہو کر اپنے دانت چبا نے لگتا ہے اس سکول کو ہم حکومت پا کستان کی نشا نی سمجھ کر اپنے ملک اور اپنی حکومت پر فخر کر تے تھے یہ بھی نہ رہا تو ہمارے پاس کیا رہ جا ئے گا، صحا فیوں نے کہا سیٹھ بچوں سے بھا ری فیس نہیں لے گا، بچوں اور بچیوں کی فیس والدین پر بوجھ نہیں ہو گی، بچوں اور بچیوں کو پبلک سکو لوں کی طرح معیا ری تعلیم ملے گی، تعلیم کی خا طر والدین اپنے گھر بار، گائے، بیل اور گھوڑے، گدھے بیج کر فیس برداشت کر لینگے مگر یہ بات لو گوں کی سمجھ میں نہیں آئی، جس کی سمجھ میں آگئی اُس نے پسند نہیں کیا، ایک ستم ظریف نے کہا غریبوں کے ساتھ کھلا مذاق ہے ہم نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں بعض اوقات غلط لو گوں کے اکسا نے پر حکومت غلط فیصلہ کر تی ہے اور پھر اپنا فیصلہ واپس لیتی ہے ابھی حال ہی میں حکومت نے سستے اشیائے صرف بیجنے والے یو ٹیلیٹی سٹوروں کو بند کر نے کا فیصلہ کیا لیکن عوام کی طرف سے حقیقت سامنے آنے کے بعد حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا سردست ہمیں ان حلقوں کو تلا ش کرنا چاہیے جو حکو متوں کو اوٹ پٹانگ قسم کے مشورے دیتے ہیں، اور پیچھے کسی کونے کھدرے میں جا کر چھپ جا تے ہیں ایسے فیصلوں کے منفی نتا ئج حکومتیں اور بر سر اقتدار جما عتیں بھگت لیتی ہیں یہ کسی سرحدی گاؤں تک محدود بات نہیں پشاور کے مضا فات میں پشتخرہ اور بڈ ھ بیر تک چکر لگا نے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں پا کستان کا سبز ہلا لی قومی پر چم لہرا تا ہے وہ سرکاری سکول ہی ہے یہ وہ عمارت ہے جس کے دروازے پا کستان اور قومی پر چم سے محبت کرنے والوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں اندرون شہر آجا ئیں تو ڈھکی سے لیکر گنج تک پا کستان کا پیارا پر چم سرکاری سکولوں پر ہی نظر آتا ہے شا ید کوئی ہے جس کو یہ پر چم اور اس کا نظا رہ اچھا نہیں لگتا‘مذکورہ مشورہ شا ید مفت ہے اس لئے سر کار کو پسند آیا ہو گا ویسے خدا لگتی کہئے تو سکولو ں کی نجکاری ایک اچھوتی تجویز ہے اس تجویز کا کوئی سر پیر نہیں، حکومت اپنے کاروباری اداروں کی نجکاری اُس وقت کر تی ہے جب یہ ادارے 30یا 40سال سے مسلسل خسارے میں جا رہے ہوں‘متبا دل پرو گرام نہ ہو، سکول، ڈاک خانہ اور ہسپتال کاروباری ادارے نہیں ہیں ان کا شمار لا زمی خد مات میں ہو تا ہے‘ اپنے شہری کو شنا ختی کارڈ دینے کے ساتھ ہی ریا ست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مفت تعلیم کی سہو لت فراہم کرے شہری کے بچوں کو گھر کی دہلیز پر سرکاری سکول سے مفت تعلیم حا صل کرنے کے مواقع حا صل ہوں، یہ بنیا دی ضرویات میں سے ایک اہم ضرورت ہے‘2024ء میں ترقی یا فتہ دنیا کو چھوڑ کر ہمارے پڑو س میں واقع ہماری طرح پسماندہ، غریب اور ترقی پذیراقوام نے بھی شرح خواندگی میں ہم پر سبقت حا صل کی ہے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عوامی جمہوریہ چین میں شرح خواندگی 99فیصد، بھارت میں 77فیصد، ازبکستان میں 100فیصد ہے‘قابل ذکر بات یہ ہے کہ خا نہ جنگی سے متا ثر ملک سری لنکا میں بھی شرح خواندگی 88فیصد ہے جبکہ وطن عزیز پا کستان میں یہ شرح بمشکل 62فیصد کی شرح تک آگئی ہے‘ ہمارے بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے قصبوں اور دیہات کے سرکاری سکول شرح خواندگی میں بنیا دی کر دار ادا کر تے ہیں یہ ہمارے سرکاری سکول ہیں جو معا شرے کے غریب اور نا دار طبقے کے بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں اگر یہ سکول کسی سیٹھ نے خرید لئے تو مفت تعلیم کا یہ نظا م ختم ہو جا ئے گا، پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم صرف امیر اور دولت مند طبقہ برداشت کر سکتا ہے غریب طبقہ بر داشت نہیں کر سکتا، اقتصادی سروے اور مر دم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطا بق پا کستان میں غر بت کی شرح سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔
‘ 1970ء میں 30 فیصدآبادی غر بت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی‘2024ء میں یہ شرح 47فیصد ہو گئی ہے وجہ یہ بتا ئی جا تی ہے کہ مڈل کلا س یا درمیانہ طبقے کا سفید پوش حلقہ غر بت کی لکیر کو کر اس کرتا جا رہا ہے اور کسی بھی ملک کے لئے یہ مشکل صورت حا ل ہو تی ہے ان حالات میں اُمید ہے حکومت اپنے فیصلے پر ضرور نظر ثا نی کرے گی، کم از کم سر حدی دیہات کے عوام کو ما یو س نہیں کریگی۔