امریکی صدر جو بائیڈن نے بڑے اہتمام کے ساتھ سرکاری بیان میں اعلا ن کیا ہے کہ لبنان میں فلسطینی مہا جر ین کے لیڈر حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے ساتھ ہمیں حتمی کامیا بی ملی ہے کامیابیوں کا یہ سلسلہ ہم جا ری رکھیں گے مقا صد حاصل ہونے تک جنگ بندی نہیں ہو گی اسرائیل کو امریکہ کا بھر پور تعاون حا صل رہے گا‘ اس بیان کے بعد ایران‘ یمن اور غزہ پر تازہ حملوں میں 400مسلمانوں کو شہید اور 1000 سے زیا دہ کو زخمی یا معذور کیا گیا‘ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی طرف سے تل ابیب پر ما رٹر حملے کے دن تجزیہ نگاروں نے لکھا تھا کہ یہ حملہ فلسطینیوں کی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں‘ صیہونیوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اور اس کا انجام فلسطینیوں کے حق میں تباہ کن ہو گا‘ حسن نصر اللہ کی شہا دت کے بعد غیر جا نبدار مبصرین کو اندیشہ ہے کہ حا لات ایک اور عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اگر عیسائی اور یہو دی افواج نے اتحا د کر کے افغانستان‘ عراق اور شام کی جنگوں کا اعادہ کیا‘ تو روس اور چین اپنے روا یتی اتحا دی فلسطین کا ساتھ دیں گے اور یہ چھٹی عالمی جنگ
ہو گی‘ چھٹی عالمی جنگ سر مایہ دارانہ اور ملحدا نہ نظام کے درمیان لڑی جائے گی‘ خبروں کی دنیا میں فلیش بیک یعنی ہر خبر کے پس منظر میں جھانکنے کا دستور ہے اگر مشرق وسطیٰ کی تازہ ترین صورت حال کے پس منظر پر نظر دوڑا ئی جا ئے تو ماضی کے تین واقعات سامنے آتے ہیں‘پہلا واقعہ عظیم تر اسرائیل یا ارض موعود کا دعویٰ ہے‘ دوسرا واقعہ صیہو نی جا سو سی نظا م میں امان 8200نا می خفیہ ایجنسی کے 12000 اہلکاروں اور سول کنٹریکٹرز کو خلیج‘ افریقہ اور ایشیا کے مسلمان ممالک میں پھیلا نے کی پرا نی خبر ہے اور تیسرا واقعہ 1992ء میں خلیجی مما لک کے اندر 5 امریکی فو جی اڈوں کا قیام ہے‘ یہودی محققین
تھیوڈورہرزل اور ایوی لپکن کے مطا بق کم و بیش دو ہزار قبل از مسیح میں حضرت یعقوب ؑ کی اولاد حضرت یو سف ؑ کی دعوت پر فلسطین سے مصر جا کر جن علا قوں میں پھیلی وہ علا قے اب اردن‘ مصر‘ عراق‘ شام اور حجا ز تک کی جغرافیا ئی حدود میں شا مل ہیں اس جغرا فیا ئی اکائی کو ارض مو عود (Promised Land) کہا جاتا ہے‘یہ دعویٰ عظیم تر اسرائیل کا منصو بہ کہلا تا ہے خا تون دانشور تقی نصیرات نے لکھا ہے کہ صیہو نی لا بی نے تر کی اور ایران کو بھی اس منصو بے میں شامل کیا ہے بر منگھم یونیور سٹی کے کنگ فیصل سنٹر کے ایسو سی ایٹ سعودی نژاد پرو فیسر عمر کریم کی تحقیق کے مطا بق عظیم تر اسرائیل کا کوئی منصو بہ نہیں یہ ایک واہمہ ہے لیکن 1917ء سے لے کر 2024ء تک گذشتہ ایک صدی کے اندر مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں 1948ء سے اب تک جو جنگیں لڑی گئیں وہ اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ عظیم تر اسرائیل کا منصو بہ اٹل
حقیقت ہے 1945ء تک بر طانیہ نے اس پر کام کیا 1945ء کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ مل کر اس کو عملی جا مہ پہنا نے کی جدو جہد کر رہے ہیں یہ واہمہ نہیں تھیوڈور ہرزل اور تقی نصیرات کی باتوں میں وزن بھی ہے سند بھی ہے خلیج‘ افریقہ اور ایشیا کے اسلا می مما لک اور ان کے اتحا دیوں کی جاسوسی کے لئے مان 8200کی چھتری کے نیچے 12000جا سو سوں کی تقرری اور ان کو جدید الیکٹرانک آلا ت سے لیس کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن ایک بڑے منصو بے پر کام کر رہا ہے اسما عیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کے ٹھکانے تہہ خا نوں کی چھٹی اور 14 ویں منزلوں پرتھے‘ انہی جا سوسوں نے پتہ لگا کر بمبا ری کروائی‘ خلیجی ممالک کے اندر امریکہ کے فو جی اڈے 24 گھنٹے عظیم تر اسرائیل کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے تیار‘ مستعد اور چوکس رکھے جا تے ہیں یہ سارا کام حا دثا تی طور پر نہیں ہو رہا با قاعدہ حکمت عملی اور منصو بہ بندی سے ہو رہا ہے اس لئے حسن نصر اللہ کو شہید کر نے کے بعد دشمن وی (V) کا نشان بنا تا ہے اور حتمی کا میا بی کا اعلا ن کر تا ہے۔