ست رنگی 

اردو کی ادبی تاریخ میں اہل زبان کے بڑے مراکز لکھنؤ‘ دہلی‘ کر اچی اور لا ہور وغیرہ سے دور ملک کے مختلف حصوں میں تخلیق پا نے والے ادب کیلئے مضا فاتی ادب کی الگ در جہ بندی عمل میں لائی گئی ہے اور نقا د بڑے اہتما م کے ساتھ مضا فا تی ادب کا موازنہ دیگر مر اکز میں منظر عام پر آنیوالے ادب سے کرتے ہیں اسکی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ زبان کے بڑے بڑے مرا کز میں رسائل و جرا ئد شائع ہوتے ہیں‘ کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں‘ سیمینار اور مذاکرے ہوتے ہیں مشاعرے ہوتے ہیں یوں ادب پاروں کی نو ک پلک سنورتی اور نکھرتی ہے‘ مضا فات میں تخلیق کاروں کو نہ مل بیٹھنے کے موا قع ملتے ہیں نہ ان کی تخلیقات ادبی جریدوں میں شائع ہوتی ہیں اس طرح وہ لو گ جو ادب پا رے تخلیق کرتے ہیں وہ شائع ہو نے سے پہلے کتا بی صورت میں منظر عام پر آتے ہیں اور مضافات کے ادیب یا شاعر کو اپنی کتاب بھی اپنی جیب سے خر چ کر کے شائع کرنا پڑتی ہے جس سے جیب پر زلزلہ آتا ہے اور بینک اکاؤنٹ کانپ اٹھتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ مضا فات میں ادب تخلیق ہونے اور چھپا ئی کے مرا حل سے گذر کر مار کیٹ میں آنے کے امکا نا ت کم ہیں ایسے قحط الکتا ب میں الہ ڈھنڈ ملا کنڈ سے تعلق رکھنے والے ادیب محمد جمیل کا چو خیل نے اپنی اردو کتاب ”ست رنگی“ شائع کر کے خیبر پختونخوا کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے یہ ایسی کتاب ہے جس کو ہم لکھنؤ‘ دہلی‘ لا ہور یا کر اچی کے کسی بڑے تخلیق کار کے سامنے فخریہ طور پر پیش کر سکتے ہیں‘ خیبر پختونخوا میں اردو پر تحقیقی اور تنقیدی کام کرنیوالوں کیلئے ”ست رنگی“ ایک اہم سو غا ت ہے‘ ادبی اصنا ف کی در جہ بندی میں یہ کتاب طنزو مزاح کے زمرے میں آتی ہے جیسا کہ ادب کا ہر قاری جانتا ہے طنز نگار نشتر چلا کر اپنے ہدف کو چونکا دیتا ہے وہ پتھر اٹھا نے لگے تو مزاح کے ذریعے اس کے زخم پر مر ہم رکھتا ہے اور یہ سلیقہ اس کتا ب کے مصنف کو خو ب آتا ہے فہرست ابواب میں کتاب کے عنوا نات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادب پارے الگ الگ شہ پاروں کی صورت میں لکھے گئے آخر میں ان کو یکجا 
کر کے کتابی صورت دی گئی ان میں معاشرتی حالات‘ عوامی نفسیات‘ خواص کے نمایاں تضادات کو سامنے لا یا گیا ہے مثلاً ”قرض کی ماں نہیں مرتی“ ایسا عنوان ہے جو آئی ایم ایف ماموں کے ساتھ وطن عزیز کے حکمرانوں کے معاشقوں سے پردہ اٹھا تا ہے اور اس راز کا انکشاف کرتا ہے کہ ہم عیاشی کیلئے قرض نہیں لیتے بلکہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے قرض لیتے ہیں عیا شی خو د بخود آٹپکتی ہے اور قرض کی مے کا بڑا حصہ اچک لے جا تی ہے بقول فیض کچھ واعظ کے ہاں کچھ محتسب کے گھر جا تی ہے ہم بادہ خواروں کی مے جا م میں کمتر جا تی ہے اس طرح میں اور پاکستان‘ دم داریاں‘ پیٹ کے پجاری‘ فرینڈ ان فرینڈ اور ڈاکٹر تا حکیم ایسے عنوانات ہیں جن کے اندر لطائف و ظرائف کے ساتھ ساتھ پندو حکمت کے کئی گو شے نظر آتے ہیں تقدیر خندہ زن ایک عنوان ہے اسکے تحت آپ لکھتے ہیں ”سارے جہاں کے دوسرے احمقوں کی طرح میں بھی اپنے آپ کو بہت عقلمند‘ دانا‘ دور اندیش بلکہ دانشور سمجھتا ہوں ہر ایک کو مفت میں گراں قدر اور پر خلو ص مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں سوائے محنت طلب کاموں کے وہ کون سا کام ہو گا جس کا میں ما ہر نہیں“مصنف کو اس بات کا دکھ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں پرانی اقدار اور کام معاشرے سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ مصنف لکھتا ہے ”خطوط نویسی اب وینٹی لیٹر پر ہے آج کل جس کا م کے کرنے کا ارادہ نہ ہو یا التوا مقصود ہو تو وہاں خطوط اور مرا سلے“ لکھے جاتے ہیں مثلاً اسلام آباد میں خطوط ایک دائرے میں ذلیل و خوار ہو کر چکراتے پھرتے ہیں سیکرٹری صدر کو خط لکھتا ہے صدر وزیر اعظم کے پاس روانہ کرتا ہے وزیر اعظم سے قائمہ کمیٹی اور وہاں سے پھر سیکر ٹری کے پا س آتا ہے کار سرکار اور فلا ح عوام سے جا ن چھڑا نے کیلئے خطوط بازی سب سے مو ثر ذریعہ ہے“مر حو مین کی یاد میں لکھا گیا انشائیہ اس لحا ظ سے بھی دلچسپ ہے کہ اس کو مصنف نے بر محل اور پر کشش اشعار سے مزین کر دیا ہے ست رنگی ایک کتاب ہی نہیں ایک بیا نیہ بھی ہے جو اس بات پر اصرا رکی علا مت ہے کہ معیاری ادب صرف بڑے مرا کز میں تخلیق نہیں ہوتا‘ شہروں سے دور پہاڑوں کے جھرمٹ میں واقع الہ ڈھنڈ جیسے دور افتادہ اور پسماندہ قصبے میں بھی تخلیق پا تا ہے‘ اور یہ اتنا زور دار بیا نیہ ہے کہ بڑے مرا کز کے نقادوں کو بھی اپنی طرف متو جہ کرتا ہے۔