نسلوں میں فاصلے

معا شرتی ہم آہنگی کا جہاں بھی ذکر آتا ہے بزر گوں کی نسل نئی نسل کو اس کی راہ میں حا ئل قرار دیتی ہے‘جب یہی بات نئی نسل کے سامنے رکھی جا تی ہے تو اس کا مو قف اس کے بر عکس ہو تا ہے‘نئی نسل کہتی ہے کہ بزر گوں کی نسل نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا نہیں چاہتی، خیا لات کے اس فرق کو انگریزی میں جنریشن گیپ (Generation gap) کا نا م دیا گیا ہے‘یہ نا م اس لئے دیا گیا کہ دو نسلوں کے خیا لات میں ٹکراؤ مغر بی تہذیب میں سب سے پہلے پیدا ہوا‘ پھر یہ تصادم رفتہ رفتہ مشرقی روا یات پر حملہ آور ہوا مشرقی زبانوں میں اس کا کوئی مخصوص نا م نہیں ہے‘ اردو میں اس کو ”نسلوں میں فاصلے“ کا نا م دیا جا سکتا ہے۔یہ عالمی مسئلہ ہے، البتہ اس کی جہتیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔
 اٹھارہویں صدی میں سائنسی نظریات اور ٹیکنا لوجی کی مداخلت نے نسلوں کے فاصلے مزید بڑھا دیے، انیسویں صدی میں وسطی اور جنو بی ایشیا میں جدید تعلیم کا دور آیا، جگہ جگہ سکول کھل گئے تو یہاں پر ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا، بچہ سکول سے آکر سبق کی دہرائی کر رہا تھا، وہ سبق تھا”دنیا گول ہے دنیا گول ہے“ باپ اس کو ڈانٹ کر سمجھا تا تھا دنیا گو ل نہیں دنیا چپٹی ہے چنا نچہ وہ سکول میں دنیا گول ہے والا سبق یا د کر تا اور گھر آکر دنیاچپٹی ہے والا سبق یاد کر تا، محکمہ تعلیم کا آفیسر سکول کے معا ئنے پر آیا اُس نے بچے سے وہی سبق سنا نے کو کہا، بچے نے سبق سنا تے ہوئے کہا سکول میں دنیا گول ہے گھر پر دنیا چپٹی ہے، سکول والا سبق نئی نسل کا سبق تھا، گھر پر اس کو پرانی نسل کا سبق پڑھا یا گیا تھا، سائنس اور ٹیکنا لوجی نے آگے بڑھ کر پب جی، چیٹ جی پی ٹی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی پٹا ری کھو ل دی اور اس میں سے ہزاروں نا گ با ہر آئے تو پرا نی نسل چکر اگئی، یہ چیزیں اس کی سمجھ میں با لکل نہیں آتیں، اس کو ورلڈ وائیڈ ویب کا بھی پتہ نہیں،بلیک ویب اور ڈیپ ویب اس کی دستر س سے بہت دور کی چیزیں ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ بزرگ نسل مشرق کی طرف جا رہی ہے نئی نسل کا رخ مغر ب کی طرف ہے، بیسویں صدی کے لبنا نی شاعر، نا ول نگار اور ما ہر نفسیات خلیل جبران نے 1940ء میں لکھا تھا ”اگر تم ایک کامیاب اور دانشمند باپ ہو تو اپنی اولاد کو زمین، مکان، ہتھیار، زیور اور سونا چاندی کی صورت میں اپنا ہر اثا ثہ دے سکتے ہو‘ مگر اپنا دما غ اور اپنی سوچ یا فکر نہیں دے سکتے کیونکہ تمہارا دما غ ما ضی کا ہے اور تمہا ری سوچ ما ضی سے تعلق رکھتی ہے۔
 تمہاری اولا د مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہو گی، تم گذرے کل کے لئے پیدا ہوئے تھے وہ آنے والے کل کے لئے پیدا ہوئی ہے“ نسلوں کے فاصلے پر اس سے بہتر تبصرہ نہیں ہو سکتا۔آج کا معا شرہ ہم آہنگی سے محروم ہو تا جا رہا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں نسلوں میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کی صلا حیت دم توڑ چکی ہے، ہم آہنگی کا فارمولا یہ ہے کہ بزرگوں کی نسل نئے خیا لات، نئے نظر یات، نئی ٹیکنا لو جی اور جدید اخترا عات کے لئے اپنا ذہن کھو ل دے اور دل و جا ن سے ان سب کو قبول کرے، نو جوانوں اور نو نہا لوں کی نسل اس بات کا ادراک کرنے میں پس و پیش نہ کرے کہ ہمارے بڑوں نے اپنے بڑوں سے جو میراث پا ئی وہ ہزاروں سالوں کے انسا نی تجر بات پر مبنی ہے۔اس لئے  قابل قدر ہے ہم نے ما ضی کو اپنی گود میں لے کر حال کو سر پر رکھ کر مستقبل کی طرف قدم بڑھا نا ہے، جب ایسا ہو گا تو معا شرے میں ہم آہنگی کا دور دورہ ہو گا۔