معا شرتی اور سما جی زند گی میں ہر زبان کے الفاظ اپنے معنی بدلتے رہتے ہیں یہی بات ثقافت پر صادق آتی ہے ثقافت بہت جا مع لفظ ہے نصف صدی پہلے ثقافت میں رہن سہن کے آداب، سما جی رسومات سے لیکر غم اور خو شی کے لمحات میں لو گوں کے فطری جذبات بھی شامل تھے پھر ایسا ہوا کہ ریڈیو، ٹیلی وژن اور ریکارڈ پلیئر کی مدد سے صرف نا چ گا نے کو ثقا فت کا در جہ دیا گیا‘ اس کے بعد وقت نے پلٹا کھا یا اور سوشل میڈیا کا جا دو گر آیا تو ایک گاؤں کے نا چنے والے کو پوری قوم کی ثقا فت کا درجہ مل گیا‘آگے جا کر ہم نے دیکھا کہ ہنزہ اور گوجا ل یا چین اور تبت میں کوئی محفل مو سیقی ہو تی ہے تو اس کو سوات، چترال یا کسی اور علاقے کی ثقافت کا نا م دے کر پیش کیا جا تا ہے‘ وہ لو گ شور مچا تے ہیں کہ اس طرح کا رقص ہماری ثقافت نہیں، اب صارفین حیران ہیں کہ کون سی چیز کس کی ثقا فت ہے؟ گویا پہلے ذرائع ابلا غ نے ثقا فت کا دائرہ چھوٹا کر کے اس میں سے رہن سہن، روایات اور سما جی اقدار کو نکال دیا ثقافت میں نا چ گانے کا چھوٹا ساٹکڑا رہ گیا، اب سوشل میڈیا نے کسی ایک کا ناچ گانا چھین کر کسی اور کو دے دیا گویا ثقافت میں نا چ گا نا بھی صحیح سالم نہیں رہا‘اگر اس رفتار سے ثقافت کا تنزل جا ری رہا تو بہت جلد ثقافت کا نا م مٹ جا ئے گا جس دور نا ہنجار میں ہم جی رہے ہیں اس دور کی ایک خا صیت یہ ہے کہ یہ قدیم آثار اور روایات کو زندہ رکھنے سے زیا دہ ان کو مٹا نے پر لگا ہوا ہے اور جس روایت کو مٹا نا چاہتا ہے بہت جلد مٹا دیتا ہے‘خد شہ یہ ہے کہ ثقافت کے دائرے کو تنگ کرنے کے بعد اب اس کانا م مٹا نے کی باری آگئی ہے اور یہی حال رہا تو نام بھی مٹ جا ئے گا۔ہمارے بڑوں نے سال ہا سال کے مسلسل تجربے کے بعد جن چیزوں کو ثقافت کا حصہ بنا یا تھا‘ان میں سب سے پہلے رہن سہن، خوراک، پو شاک اور میل جول کے آداب آتے تھے‘وزیر ستان کی پگڑی ہو یا کشمیر کا گھا کرا دونوں اپنی اپنی ثقافت کی علا متیں ہیں‘ سکھ اور ہندو اپنے مُر دے کی آخری رسومات میں مذہبی کتا بوں کے بھجن سنا تے ہیں جبکہ کا لا ش اپنے مُردے کی آخری رسومات میں رقص و سرود اور نا چ گانے کا اہتمام کر تے ہیں یہ ہر مذہب کی الگ الگ ثقافت کے نشا نات ہیں‘میرے دوست عصمت اللہ کو یہ شکا یت ہے کہ فیس بک والے احباب ہنزہ میں ایک لڑ کے اور لڑ کی کا رقص لیکر اس پر چترالی ڈانس کا کیپشن لگا تے ہیں‘ میں احتجا ج کر تا ہوں مگر کوئی سنتا نہیں ہم نے اپنے دوست سے عرض کیا کہ سوشل میڈیا سمندر ہے اس کے اندر پہاڑ غائب ہو جا تے ہیں ہمارا، آپ کا احتجا ج کیا معنی رکھتا ہے‘خو شی مناؤ کہ ہمارا نا م آجا تا ہے لیکن بعض لو گ ثقافت کے حوالے سے بہت حساس ہو تے ہیں۔یہ 1994کا ذکر ہے ایک بین لاقوامی ایجنسی نے گاؤں گاؤں جا کر لو گوں سے رائے لینے کا اہتمام کیا‘اس منصو بے میں لوگوں سے ان کی ترقیا تی تر جیحا ت کے بارے میں بھی ایک سوال پوچھا گیا جب سروے کے نتا ئج آئے تو کسی جگہ سڑک کو پہلی تر جیح قرار دیا گیا کسی جگہ پینے کا پا نی‘کسی جگہ آپ پا شی کی نہر‘کسی جگہ دریا کے کٹا ؤ سے تحفظ کا ذکر آیا، عصمت اللہ کے گاؤں واشیچ میں لوگوں کی 73فیصد نے رائے دی کہ ثقا فتی ورثے کا تحفظ ہماری اولین تر جیح ہے اگر ثقافت کو نا چ گانے تک محدود کیا گیا تو ثقا فتی ورثے پر ظلم ہو گا‘اونی چُغہ، اونی ٹوپی، ریشمی کڑھا ئی کا ساراکام، لکڑی پر نقش و نگار کا پورا سلسلہ، انواع و اقسام کے قدیمی ما کولا ت اور مشروبات، رہن سہن کا پورا نظام اگر ثقافت سے نکل گیا تو پھر کیا رہ جائے گا؟۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سر راہ چلتے چلتے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم اور شاعر
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
دو حکمران
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی