فلسطینی بچوں کے لئے 

فلسطینی بچوں کی مظلومیت نے دنیا بھر سے یہو دیوں کے سوا تما م مذاہب کے لو گوں کی تو جہ حا صل کر لی ہے ایک تصویر ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہے جس میں ایک فلسطینی بچہ مکان کے ملبے میں پھنسا ہوا ہے اور کتا اس کے پاس آکر مزید ملبہ گرنے کے چوٹوں سے اس کی حفا ظت کر رہا ہے ‘گویا یہو دیوں سے کتا بھی زیا دہ رحمدل ہوتا ہے ، فلسطینی بچوں کے ساتھ دنیا بھر کے انسان دوست اور منصف مزاج لو گ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں ‘بھار تی ادیبہ اور دانشور اروندھتی رائے نے بر طانیہ میں پین پنٹر ( PEN Pinter) نا می مشہور ایوارڈ میں سے نصف رقم فلسطینی بچوں کی امداد کے لئے قائم فنڈ کو دینے کا اعلا ن کیا ہے ‘پین پینٹر ایوارڈ 2009سے ہر سال کسی ایسے ادیب کو دیا جا تا ہے جس کا تعلق دولت مشترکہ کے ممبر ملکوں میں سے کسی ملک سے ہو ، اور جس نے انسا نی حقوق اور آزادی اظہار کے لئے اپنے قلم کے ذریعے نما یاں خد مت انجام دی ہو اور مظلوم لو گوں کی غیر متز لز ل حما یت کی ہو ، ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب برٹش لائبریری لندن میں منعقد ہوئی ، اروندھتی رائے نے اس انعام کی نصف رقم مصری بلا گر اور انسا نی حقوق کے لئے کا م کرنے والے نو جوان علا ءعبد الفتح کو دینے کا اعلا ن کیا جو بر طانوی شہری بھی ہے اور اس وقت مصر میں قید تنہا ئی کی سزا کا ٹ رہا ہے ‘اس موقع پر اروندھتی رائے نے جو تقریر کی وہ انگریزی کا خو ب صورت نثر پا رہ ہونے کے ساتھ ساتھ مصنفہ کی جراءت اظہار کی مثا ل بھی ہے‘ پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں اس تقریر کو بار بار شائع اور نشرکیا جا رہا ہے ‘یہ تقریر سوشل میڈیا پر بھی وائر ل ہو چکی ہے تقریر میں کئی باتیں اور بھی ہیں جو قابل ذکر ہیں مصنفہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں غیر متزلزل کے لفظ کو آڑے ہا تھوں لیا انہوں نے کہا Unflinchingکا لفظ مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا جب بھی سوچتی ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی کمزور وں پر ظلم ہوتا ہے ظالموں کو امریکہ کی Unflinchingیا غیر متزلزل حما یت اور آشیر باد حا صل ہو تی ہے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی ایک سال سے جا ری ہے اور اسرائیل کو امریکہ اپنی Unflinchingیا غیر متزلزل مدد کا یقین دلا تا رہتا ہے اس لئے یہ لفظ مجھے بے قرار کر تا ہے جب میرے قلم اور میری کتاب کے ساتھ اس لفظ کا استعمال کیا گیا تو میں ایک بار پھر بے چین ہو گئی مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ لفظ پہلے ہی ” بے آبرو“ہو چکا ہے ‘اپنی انتہا ئی اہم تقریر میں اروند ھتی رائے اپنے ملک بھارت میں قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونے والے سیا سی اور سما جی کارکنوں کو نہ بھول سکی ، ان میں عیسائی اور ہندو کم ہیں مسلمان زیا دہ ہیں اور مسلمانوں میں کشمیری بھی ہیں انہوں نے جو ش خطابت میں کہا کہ میں علا ءعبد الفتح کو یہاں اس ہال میں مو جود پا تی ہوں ، میں سمجھتی ہوں کہ ان کا چہرہ میرے سامنے ہے میں اسی طرح بھا رت میں قید کا ٹنے والے بے گنا ہ کارکنوں کو بھی یہاں اپنے سامنے مو جود پا تی ہوں میں دیکھتی ہوں کہ سر یندرہ گیڈ لنگ بھی یہاں مو جود ہے مہیش راوت بھی مو جو د ہے خرم پرو یز ، عمر خا لد ، گل قستہ فاطمہ ، خا لد سیفی ، روناولسن ، شر جیل امام اور عرفان معراج بھی یہاں مو جود ہیں میں آج اپنا اعزاز ان سب کے نا م کر تی ہوں خا ص فلسطینی بچوں کے نا م کر تی ہوں یہ بہت بڑی بات ہے کہ آج کے پُر آشوب دور میں پو ری دنیا کے انصاف پسند اور معتدل مزاج لو گ مظلوم فلسطینیوں کے دُکھ درد کو سمجھتے ہیں اور حما س کی جدو جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 اگر چہ اسلا می مما لک کی طرف سے غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ نظر نہیں آتا ، شکر کا مقام یہ ہے کہ بھارت ، فرانس، جر منی ، برازیل ، روس اور چین سمیت کئی مما لک نے غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔