چل اڑ جا رے پنچھی

پشاور ائر پورٹ کے رن وے پر جہاز نے دبئی کے لئے اڑان بھری تو بے ساختہ زبان پر یہ مصرعہ آیا ”چل اڑ جارے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ“مگر ایسی کوئی بات نہیں تھی ہمیں بیٹے نے اٹلی کے شہر روم آنے کی دعوت دی اور ہم نے رخت سفر باندھاغالب کا شعر ہے”جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا تپش شوق نے ہر ذرے پہ اک دل باندھا“گوادر اور مسقط  کی فضاؤں پر مست پرواز کرتے ہوئے ہم دبئی پہنچے‘ رسمیات سے گذر کر اگلے جہاز کے لئے مختص دروازے پر آکر ڈیرے ڈال دیئے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ ائر پورٹ کی وسعتوں کو پاٹنے کے لئے ہمیں ریل پر سفر کرنا پڑا‘ ریل میں بیٹھے تو علامہ اقبال کا فارسی کلام یاد آیا‘شاعر چاند سے خطاب کر کے کہتاہے”سفر نصیب!نصیب تو منزلے است کہ نیست“ہماری نصیب کی منزلیں اب آنے والی تھیں۔
دبئی سے روم جانے والی پرواز کا اعلان ہواتو ہم نے خراماں، خراماں جہاز کی طرف پیش قدمی شروع کی‘جہاز میں بیٹھ کر اپنی سیٹ کا ٹیلی وژن سکرین آن کی تو معلوم ہوا کہ4300 کلومیٹر سے زیادہ کا فضائی فاصلہ ہمارا منتظر ہے پشاور سے دبئی کا فضائی فاصلہ 1800 کلومیٹر کے برابر تھا‘ جہاز نے خلیج فارس کے بعد عراق،کویت،ترکیہ اور یونان کے اوپر سے گذرتے ہوئے بحر احمر کے کنارے پر واقع شہر روم میں ہمیں اتارا، شام کے دھندلکے میں روم کے اندر محمد فاروق کا پتہ ڈھونڈنا آسان نہ تھاتاہم فاروق نے بچوں کے ہاتھوں میں گلدستے دے کر ہمارا استقبال کیااو ر کسی ردوکد کے بغیر پلک جھپکتے ہی ہمیں ”ویا انتونیو ترس مونٹے 10“میں واقع اپنے گھر پہنچا دیا‘یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں کا موسم پشاور کی طرح ٹھنڈا ہے‘دن کو دھوپ پڑتی ہے تو گرمی محسوس ہوتی ہے‘شام 
اور صبح کا وہی خزاں رسیدہ حال ہے جو پشاور کا ہے‘فاروق نے بتایا کی پنج وقتی نماز کے لئے مسجد کافی دور ہے‘ جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھیں گے۔
 یہ مسجد ایک گھر میں تھی بلکہ پورے گھر کو مسجد بنایا گیاہے،پیش امام اور موذن بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں،نمازیوں کی اکثریت بھی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی ہے،دوسرے مقامات پر مراکشی، مصری اور دیگرافریقی مسلمانوں کی مساجد واقع ہیں‘ روم  کا شہر یورپ کا پرانا شہر ہے،انگریزی ادب کے سینکڑوں ناولوں اور ڈراموں کا پس منظر اسی شہر سے لیاگیاہے۔چترال کے ساتھ اس کی دو نسبتیں ہیں،ڈولومایٹ کا پہاڑی سلسلہ اس کی پہچان ہے جس طرح ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ چترال کے حوالے سے شہرت رکھتاہے‘طیبر نامی دریا (River Tiber) شہر کے عین وسط میں بہتاہے جس طرح دریائے کابل چترال شہر کے وسط میں بہتا ہے اور دریائے چترال کہلاتا ہے‘روم کو سیاحت کا شہر کہا جاتاہے۔ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے مقامات کا شمار ممکن نہیں،تاریخی قلعے بھی ہیں، عیسائیوں کے مذہبی مقامات بھی ہیں‘کیتھولک  چرچ کے سربراہ پاپائے روم کا مرکز ویٹی کن سٹی بھی یہاں واقع ہے‘جو شہر کے اندر خودمختار ملک کا درجہ رکھتاہے‘دنیا کے کسی اور شہر میں ایسی مثال نہیں ملتی۔
جولیس سیزر، وکٹر ایمانویل دوم اور نیرو جیسے بادشاہ  بھی روم میں گذرے ہیں‘سر زمین حجاز میں حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت یعنی 610  عیسوی میں زوال پذیر رومی سلطنت کی سرحدیں مشرق میں عراق اور شام تک پھیلی ہوئی تھیں،روم کے شہر کی سیر کے لئے اک عمر چاہئے دوچار دنوں میں مسافر کیا دیکھ سکتاہے!سیاح کے لئے اطمینان کی بڑی بات یہ ہے کہ اس شہر میں کسی بھی جگہ بھکاری نظر نہیں آتا‘پاکستانی سیاح کے لئے اس قدر خوشی بھی کافی ہے۔