روم ایک دن میں نہیں بنا 

روم اپنی قدامت کے لحاظ سے یو رپ کا پہلا جبکہ آبادی کے لحا ظ سے یو رپ کا تیسرا بڑا شہر ہے ‘اس کی آبادی 43لا کھ ہے ان میں سے 28لاکھ کی آبادی کمیون آف روما میں رہتی ہے باقی آبادی روم کے میٹر و پو لیٹن میں آباد ہے ‘ویٹی کن سٹی ایک خو د مختار ملک ہے جو روم شہر کے اندر کمیون میں واقع ہے ‘کمیون سے باہر کی مضا فاتی آبادی میٹرو پو لیٹن کہلا تی ہے یہ آبادی رقبے کے لحاظ سے کمیون کے دگنے کے برابر ہے انگریزی میں مشہور مقولہ ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا تھا ‘حفیظ جا لندھری کہتا ہے بستی بسانا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے ‘آٹھویں صدی قبل ازمسیح (753 ق۔م) میں شہر کی بنیا د رکھی گئی اس شہر نے رومی سلطنت کے دار لخلا فہ ہونے کا اعزاز بھی حا صل کیا اس نے زند گی کے کئی نشیب و فراز دیکھے، اطالوی ریا ست اور قومیت بھی ترک اور ایران کی طرح اپنے ما ضی پر فخر کر تی ہے‘ اطالوی عربوں کی طرح اپنی زبان کو باعث افتخار سمجھتے ہیں ‘روم کے شہر میں تمام نشانات اور سائن بورڈ اطالوی زبان میں ہیں انگریزی پڑھنے کو سیا ح ترستے ہیں، ہمارے دیہات میں عوام ہر گورے کو انگریز سمجھتے ہیں لیکن مغر بی مما لک میں صرف انگلینڈ کی چھوٹی سی آبادی انگریز کہلا تی ہے اس کے سوا ہر ملک کی اپنی قومیت اور اپنی شنا خت ہے ‘روم کا شہر پہاڑوں کا شہر بھی کہلا تا ہے کیونکہ اس کے دواطراف میں ڈو لو مائیٹ کا سلسلہ کوہ واقع ہے جس کی کئی مشہور چوٹیاں ہیں ساتھ ہی روم کا ساحل بھی اپنی رعنا ئیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے‘ بحر احمر کے ساحل پر جگہ جگہ پل بنا کر سیا حوں کے لئے سمندر کی سیر کے لئے سہو لت دی گئی ہے، خوا جہ حا فظ نے کہا تھا بر تر بت ما چو بگذ ری ہمت خواہ، زیا رت گہ رند ان جہاں خوا ہد بود، یہاں بھی سارے جہاں کے آزاد خیال نو جواں سارا دن یکجا رہتے ہیں ساحل سمندر کی فضا اتنی رومان پر ور ہو تی ہے کہ بے ساختہ اختر شیرانی یا د آتا ہے اور گنگنا نے کو جی چاہتا ہے ”میں ارزو ئے جاں لکھو ں یا جان ِ آرزو“ ریت پر چلتے ہوئے لہروں کا سامنا ہو تا ہے تو مونگے اور سیپیوں کے خو ب صورت خول ہاتھ آتے ہیں ‘کھوار کا بے بدل شاعر امین الرحمن چغتائی کہتا ہے ”تہ کی دور دانو طلب شیر مو خہ بہہ کورے چکستو ‘فراز کا بے مثال شعر ہے ”اجڑ ے ہوئے لو گوں میں ڈھونڈ لے وفا کے مو تی ‘ یہ خزا نے تجھے ممکن ہے خرا بوں میں ملیں “اٹلی کے جس وسیع تر علا قے میں روم کا شہر واقع ہے اس کو لازیو(Lazio rgion)کہا جا تا ہے‘ساحل سمندر پر اٹلی کے چار افراد الگ الگ مقا مات میں گیٹار یا بانسری پر نغمے بکھیر تے اور پیسے سمیٹتے ہوئے ملے، بنگلہ دیش، کشمیر اور بھا رت کے چند شہری وہاں دکا نیں سجا ئے بیٹھے تھے‘ ان سے علیک سلیک ہوئی تعارف کا موقع نہیں تھا شام ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا ‘ایک جہا ز تھوڑے فاصلے پر لنگر انداز ہوا تھا ایک اور جہاز دور سے روشنیاں بکھیر تے ہوئے سمندر کے سینے کو چیر تا ہماری طرف آرہا تھا ہم نے واپسی پر باز اروں سے گذرتے ہوئے ایشیا ئی تا جروں کی کئی دکا نیں دیکھیں ایک دکان سے تھوڑی بہت خریداری کی، فاروق نے بتا یا کہ روم میں پشاور کے ایک تا جرنے حلا ل خوراک کی دکانوں کا چین کھولا ہوا ہے‘ جہاں حلا ل چکن دستیاب ہے بلکہ چین کا نا م ہی چکن کے حوالے سے رکھا گیا ہے ‘میں نے کہا کسی دن پشاور کے باسی سے تفصیلی ملا قات کر کے دل پشوری کرینگے، جب دوستوں کو میرے روم آنے کا پتہ لگا تو انہوں نے فرمائشوں کے طومار باندھے ان فر مائشوں کا تعلق بازار ی تحا ئف سے نہیں علمی آگا ہی سے تھا کسی نے لکھا یورپ کی نشاة ثانیہ پر لکھو، کسی نے لقمہ دیا آپ مکیا ولی کے دیس میں پھر رہے ہیں اس کی کتاب دی پرنس کا پس منظر بیان کرو، کسی نے فر مائش کی کہ لیو نا رڈ و دی وینچی اور مونا لیزا پر کچھ لکھو، کسی نے رائے دی کہ عہد وسطی کی یورپی تجا رت کو موضوع بناﺅ، میں نے سوچا ان فر مائشوں کو پورا کرنے کی جگہ روم نہیں فلورینس (Florence)ہے۔