کرم ایجنسی میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں ہلاکتیں 42 ہوگئیں

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جمعرات کے روز مسافر بسوں کے قافلے پر نامعلوم مسلح افراد کے حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 42 تک جا پہنچی ہے جبکہ 30 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے ہلاکتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ جاں بحق ہونے والوں میں 7 خواتین اور ایک 9 سالہ بچی بھی شامل ہے۔

جمعرات کو مسافر بسوں کے قافلے پر حملہ مندوری چار خیل کے علاقے میں کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور زمینی تنازعات سے گھرا ہوا ہے۔

ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے کہا کہ پاراچنار سے 200 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ پشاور جانے کے لیے نکلا تھا، ابھی یہ قافلہ راستے میں ہی تھا اس پر شدید فائرنگ کی گئی، اس سے قبل انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا تھا کہ اہل تشیع مسافروں کے دو قافلوں پر الگ الگ حملے کیے گئے تھے۔

جاوید اللہ محسود کا کہنا تھا کہ زخمی ہونے والے شہریوں کی جان بچانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والوں کی میتیں پاراچنار پہنچا دی گئی ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ جلد سے جلد معمولات بحال کیے جائیں اور اس کے بعد گرینڈ جرگہ بلایا جائے گا۔

واضح رہے کہ مسافر بسوں کے قافلے پر حملے کے بعد سے علاقے میں اسکولز اور بازار بند ہیں۔ اب تک کسی گروپ کی جانب سے اس واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔

ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کی دوپہر ایک بج کر 20 منٹ پر ہونے والا یہ حملہ 12 اکتوبر کو ہونے والے اس حملے کا بدلہ ہے جس میں ایک بچے اور 2 خواتین سمیت 15 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ مقامی حکام کو تشویش ہے کہ قبائلی ضلع کرم میں حالیہ واقعے کے بعد صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

مسافر بسوں کے قافلے پر حملے میں زخمی ہونے کے بعد مقامی ہسپتال میں زیر علاج 28 سالہ اجمیر حسین نے بتایا کہ ’اچانک سے شدید فائرنگ شروع ہوئی تو میں نے دعائیں مانگنا شروع کردیں، مجھے لگا کہ یہ میرے آخری لمحات ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے ساتھ بیٹھے دونوں مسافروں کے پاؤں میں لیٹ گیا تھا، وہ دونوں متعدد گولیاں لگنے کے نتیجے میں فوری طور پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس دوران حملہ آوروں کی جانب سے 5 منٹ تک مسلسل فائرنگ کی جاتی رہی۔

افغان سرحد سے ملحقہ ضلع کرم میں فرقہ وارانہ پر تشدد واقعات اور کمیونٹیز کے مابین زمینی تنازعات کے باعث آئے روز نئے تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔

اس سے قبل مسائل کے حل کے لیے حکومت کی جانب سے ایک لینڈ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کمیشن مبینہ طور پر اپنی فائنڈنگز پر مشتمل رپورٹ حکومت کو جمع کروادی ہے تاہم معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تاحال اس رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا ہے۔

دہشت گردی کے اس حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ملوث ہونے کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں۔ ٹی ٹی پی حالیہ عرصے میں لوئر کرم میں فعال ہوئی ہے جس سے مقامی باشندوں میں خوف بھی پایا جاتا ہے تاہم حکومتی افسران اس حملے کو فرقہ وارانہ بنیاد پر زمینی تنازع سے منسوب کرتے ہیں۔

طوری بنگش قبیلے کے قبائلی عمائدین میں سے ایک جلال بنگش نے اتھارٹیز سے مطالبہ کیا کہ پھنسے ہوئے مسافروں کی بحفاظت واپسی اور زخمی ہونے والوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔

جلال بنگش اور علامہ تجمل حسین نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی جانب سے مقامی لوگوں کے پاراچنار سے اسلام آباد تک ٹرانسپورٹیشن روٹ کے تحفظ میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق نومبر کے ابتدائی تین ہفتوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 55 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔

سنہ 2022 میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے حکومت کے ساتھ سیز فائر معاہدہ توڑنے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔