گھر سے نکلتے وقت فاروق نے پو چھا پار ک جا نا بہتر ہو گا یا پرانا قلعہ؟ میں نے کہا ایسی جگہ بتاؤ جہاں پارک بھی ہو‘ قلعہ بھی ہو۔فاروق نے کہا ایسی جگہ ٹیو ولی (Tivoli) ہے، ڈیڑھ گھنٹے کا یک طرفہ سفر ہو گا‘میں نے حا می بھری فاروق اپنے والدین کو لے کر ٹیوو لی کے سفر پر روا نہ ہوا‘ جب گاڑی روم سے نیپلز جا نے والی بڑی شاہراہ پر فراٹے بھر رہی تھی‘فاروق نے دائیں طرف پہا ڑی پر گنجا ن آباد بستی کی طرف اشارہ کر کے کہا‘کیسی بستی ہے! ہم نے کہا یہاں سے تو ریحا ن کوٹ جیسی بستی لگتی ہے اور بہت دور بھی ہے‘ یہاں سے بڑا قلعہ اور گر جا گر دکھا ئی دیتا ہے‘فاروق نے کہا یہی ٹیو ولی ہے۔ روم آنے والے سیاحوں کی پسندیدہ بستی ہے‘گاڑی قلعے کی پا رکنگ میں پہنچی تو لطف آیا‘بڑا قلعہ مشہورباد شاہ ہنڈ ریان (Handrian) نے تعمیر کروایا‘ اس نے 117سے 138عیسوی تک حکومتی قلعے کا نا م ویلہ ہنڈریا نو (Villa Handriano) ہے، یہ 200ایکڑ رقبے پر محیط ہے‘ دائیں طرف زیتون کا باغ ہے‘ باغ کے اندر پا نی کے دو خوبصورت تالاب ہیں‘ایک عجا ئب گھر ہے،
یہاں سے قلعہ کی عما رتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، حمام اور محا فظوں کے مکا نا ت ہیں، آگے جا کر محل کا اندرونی حصہ ہے‘ایک بڑا تھیٹر یعنی تما شا گاہ ہے۔ دیو تا کے نا م کا معبد ہے، لیکن کوئی عما رت بھی سلا مت نہیں ہے، بعض عما رتوں کی دیواریں ہیں‘ بعض کی صرف بنیا دیں ہیں‘آتش نے کیا بات کہی ہے
نہ گور سکندر ہے نہ قبر دارا
مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے
1999ء میں اس جگہ کو یونیسکو (UNESCO) نے بین الاقوامی ورثہ قرار دیا‘ اب یہ جگہ اٹلی کی وزارت ثقا فت و سیا حت کی نگرانی میں ہے‘ یو نیسکو کے ما ہرین گر تی ہوئی دیواروں کو سہا را دینے اور قلعے کی با قیات کو محفوظ کرنے کا کام کر رہے ہیں۔علا مہ اقبال نے شاہین سے کہا تھا قصر سلطانی کے گنبد کو چھوڑ دو پہا ڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کر لو، یہاں آکر اقبال کا شاہین شش و پنج میں پڑ گیا ہو گا کہ سلطان نے اپنا قصر پہاڑوں کی چٹا نوں میں بنا لیا‘ اب میں شا عر کو کیا جواب دو ں چند روز پہلے ہم نے جس آبشار کا دورہ کیا‘ وہ اس قلعے سے یکسر مختلف تھا، وہ جدید اٹلی اور نئے روم کا ایک شہکار تھا‘اس دورے میں میر پور آزاد کشمیر کے راجہ نثار اپنی فیملی کے ہمراہ ہمارے ہم سفر تھے‘ عمر، مصطفیٰ اور ارحاء فاروق نے حیدر اور مر ضیہ نثار کی ہم رکا بی کا بھرپور لطف اٹھا یا وہ جگہ اومبریہ (Umbria) میں مار مورے (Marmore) کے مشہور آبشار کی جگہ تھی جسے دیکھنے کے لئے دور دور سے اٹلی اور بیرونی مما لک کے سیا ح آتے ہیں اور آبشار کے دلکش و دلربا منا ظر سے لطف اندوز ہو تے ہیں یہ قدرت کے حسن اور انسا نی خلقت و محنت کا شاہکار ہے‘ سب سے اوپر پہاڑی چوٹی ہے‘نیچے ہموار پٹی ہے، پھر پہاڑی چوٹی اور زمین کی ہموار پٹی آتی ہے‘آبشار سب سے بلند چوٹی سے شروع ہو تی ہے، پھر درمیانی چوٹی پر دوسری آبشار بنتی ہے۔
اس کے بعد تیسری چوٹی سے آخری آبشار سڑک کی دوسری طرف سے آکر گہرے نا لے میں اس زور سے گر تی ہے کہ اس کی چھینٹیں سڑک پر بارش کی صورت میں برستی ہیں۔ آبشار کا حسن یہ بھی ہے کہ اس کو بے مہار نہیں چھوڑا گیا بلکہ اوپر والی چوٹی میں اس کو نکیل ڈال کر مہار میونسپلٹی کے ہا تھوں میں دی گئی ہے‘ہر روز دو گھنٹوں کے لئے آبشار میں پا نی آتا ہے‘ لو گ ٹکٹ لے کر تما شا دیکھتے ہیں۔ وقت ختم ہو تے ہی سپل ویز (Spill ways) کھو ل دیئے جا تے ہیں اور پا نی پہاڑی کی دوسری طرف دریا میں جا گر تا ہے۔ علا مہ اقبال نے خالق کا ئنا ت کے ساتھ آدم کے مکا لمے کے اندر ایسے ہی قابل انجینروں کے کارنا موں کا ذکر کر تے ہوئے کہا ہے کہ اے خدا تو نے بیابان پیدا کیا میں نے اس کو باغ میں تبدیل کیا، تونے مٹی بنائی میں اس کا پیا لہ تیار کیا، یہاں خالق کائنات کے پہاڑی چٹانوں کو آدم کی اولاد نے آبشار کاروپ دیدیا ہے دیکھنے والے بہت محظوظ ہو تے ہیں۔